واشنگٹن: متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کا معاہدہ خطے کی ترقی میں اہم پیش رفت ہے۔
العربیہ نیوز کے مطابق امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے فلسطینیوں کی حقوق اور الگ ریاست کی جدوجہد متاثر نہیں ہوگی۔ یہ معاہدہ مشرقی وسطی کی ترقی کے لیے اہم پیش رفت ثابت ہوگا۔
واضح رہے کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی و اقتصادی تعلقات کے قیام کے معاہدے پر دستخط کی تقریب آج وہائٹ ہاؤس میں مقامی وقت کے مطابق 12 بجے منعقد ہوگی۔ معاہدے پر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو ، امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ دستخط کریں گے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تقریب میں شرکت کریں گے۔ معاہدے پر دستخط کی تقریب کے لیے 700 افراد کو دعوت نامے جاری کیے گئے ہیں۔
پیر کو اسرائیلی وزیر اعظم نے واشنگٹن سے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ہم نے اس معاہدے پر برسوں محنت کی ہے۔ یہ اسرائیل اور مشرق وسطی کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ اس معاہدے کے اسرائیلیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ سے منظوری باقی ہے!
اسرائیلی اخبار کے مطابق امارات کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر دستخط کے بعد اسرائیل کی مجلس قانون ساز کنیست سے اس کی توثیق لی جائے گی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے پر دستخط کے بعد پہلے کابینہ اور بعدازاں کنیست اس کی توثیق کریں گے۔
[pullquote]اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے مسجداقصی کی تقسیم ممکن ہوگئی، ماہرین[/pullquote]
دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے خلیجی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے مسجد اقصٰی کی تقسیم کی راہ ہموار ہوگی۔
خلیجی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹیریسٹریئل یروشلم(ٹی جی) نامی این جی او کی ایک خصوصی رپورٹ میں اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں میں استعمال کی گئی زبان سے مسجد اقصی کے احاطے پر مسلمانوں کا مکمل اختیار ختم ہونے کی راہ نکلتی ہے۔
1967 میں 35 ایکڑ پر محیط الحرم الشریف یا الاقصی مسجد کے احاطے سے متعلق اسرائیل نے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ یہاں غیر مسلموں کو آنے کی اجازت تو ہوگی تاہم وہ عبادت نہیں کرسکیں گے۔ 2015 میں نتن یاہو نے بھی اسی حیثیت کو تسلیم کرنے کا از سر نو اعلان کیا تھا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق 13 اگست کو امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے جاری کردی مشترکہ اعلامیے میں یہ شق شامل ہے کہ امن کے وژن کے تسلسل کے لیے پُرامن مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے عبادت گزاروں کو الاقصی مسجد اور یروشلم کے دیگر مقدس مقامات میں داخلے کی اجازت ہونی چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل احاطے میں مسجد کی عمارت کے علاوہ دیگر ڈھانچوں کو مقدس عمارتیں قرار دیتا ہے اور یہاں یہودیوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے داخلے اور عبادت کی اجازت دینے کی بات کررہا ہے۔
اس حوالے سے فلسطینی وکیل خالد زبرقا نے کہا کہ معاہدے میں یہ شق تسلیم کرکے دراصل متحدہ عرب امارات مسجد اقصی پر مسلمانوں کے مکمل اختیار سے دست بردار ہوگیا ہے اور اس پر اسرائیل کا اختیار تسلیم کرچکا ہے۔
خالد زبرقا کا کہنا ہے کہ معاہدے کی یہ شق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور 1967 میں مسجد اقصی کی تسلیم شدہ حیثیت کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ 1967 میں یہ تسلیم کیا جاچکا ہے کہ اس احاطے پر صرف مسلمانوں کا حق ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امارات اور بحرین کے ساتھ معاہدے میں شامل اس شق کے الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور مستقبل میں اس سے مسجد الاقصی کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی کا راستہ ہموار ہوگا۔