اگرچہ رضوان کے لیے طوائف کا جسم کوئی نیا تجربہ نہیں تھا لیکن جب اس نے پہلی بار نوری کے ساتھ رات گزاری تو صبح تک وہ اس کا دیوانہ ہو چکا تھا، اس نوجوان لڑکی میں وہ معصومیت برقرار تھی جو اس طبقے میں کم پائی جاتی ہے، اس کا سڈول اور کسا ہوا بدن کسی کنواری دوشیزہ کی مانند تھا اور سب سے زیادہ پراسرایت کی بات اس کے چہرے پر کس کر بندھا ہوا نقاب تھا جسے وہ کسی شخص کو نہیں ہٹانے دیتی تھی، اس نقاب سے جھانکتی دو بڑی بڑی آنکھیں مسلسل باتیں کرتیں اور اس کی خاموش طبعی کی تلافی کر دیتی تھیں۔
رضوان کوئی بڑا زمیندار نہیں تھا لیکن زرخیز زمینوں اور مختلف نوعیت کے کاروبار کی وجہ سے وہ خوشحال شخص سمجھا جاتا تھا۔ اپنے متحرک کردار اور مسائل سے نمٹنے کی غیرمعمولی صلاحیت کے باعث وہ علاقے میں اہم مقام رکھتا تھا۔ اس کے ڈیرے پر مہمانوں کی آمد و رفت ہر وقت جاری رہتی تھی۔
والدین نے شادی نوجوانی کے آغاز میں ہی پھوپھی کی بیٹی سے کر دی تھی۔ اس کی بیوی نے واجبی تعلیم حاصل کی تھی مگر دلکش شکل و صورت والی روایتی لڑکی تھی۔ رضوان کی اچھی فطرت کے باعث اس کی بیوی زندگی سے مطمئن تھی۔ تاہم جب بیٹی پیدا ہوئی اور بیوی کی توجہ بٹ گئی تو چوہدری کو کچھ کمی کا احساس ہونے لگا۔ وہ مذاق میں اپنی بیوی سے کہا کرتا تھا کہ ایک مثالی بیوی کو بستر میں طوائف اور بستر سے باہر ماں ہونا چاہیے۔ یہ دونوں باتیں اس سے چھن گئیں۔
چوہدری کریم اور چوہدری نواز کی زمینیں اس کے رقبے سے متصل تھیں۔ جب اپنے والد کی موت کے بعد رضوان کو جائیداد کی دیکھ بھال کرنا پڑی تو اسے معلوم ہوا کہ دونوں ہمسائیوں کے ساتھ اس کے والد کی برسوں سے مقدمہ بازی جاری ہے۔ اپنے مزاج کے عین مطابق اس نے دونوں چوہدریوں سے مل کر معاملات خوش اسلوبی سے طے کر دیے اور مقدمات عدالتوں سے خارج ہو گئے۔ معاملات طے ہونے کے بعد تینوں نے ایک دوسرے کے ڈیرے پر بھی آنا جانا شروع کر دیا اور یہیں سے رضوان کا طوائفوں سے تعلق شروع ہوا۔
دونوں چوہدری عیاش مزاج لوگ تھے جن کے ڈیرے پر رات کو طوائفیں بھی بلائی جاتی تھی، شراب نوشی بھی ہوا کرتی تھی اور ارد گرد کے علاقوں سے چھٹے ہوئے غنڈے اور موالی لوگ بھی موجود رہتے تھے۔ رضوان کا سب سے پہلے چوہدری نواز کے ڈیرے پر طوائفوں سے تعلق قائم ہوا اور وہ ہر ہفتے ایک دو راتیں یہیں گزارنے لگا۔ تاہم اس کی اپنی گھریلو زندگی کی طرف توجہ برقرار رہی۔
پھر اس نے سنا کہ نوری نام کی ایک نئی طوائف علاقے میں آئی ہے جو صرف مخصوص افراد کے ڈیرے پر جاتی ہے لیکن اس کی شہرت کی وجہ اس کا نقاب تھی جسے وہ کسی کو بھی اتارنے نہیں دیتی تھی، جونہی کوئی اس کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتا، اس کی شخصیت ایک دم سے بدل جاتی تھی، وہ ایک خاموش مزاج اور معصوم لڑکی سے ایک خونخوار عورت کا روپ دھار لیتی اور اسقدر چیخ و پکار کرتی کہ اسے خاموش کرانا مشکل ہو جاتا تھا۔
رضوان نے ایک رات اسے اپنے ڈیرے پر بلایا اور صبح تک وہ اس کے فسوں کا شکار ہو گیا، اگلا سارا دن وہ اسی کے متعلق سوچتا رہا، اس نے چوہدریوں کے پاس جانا چھوڑ دیا اور اپنے ڈیرے کے قریب ایک چھوٹا سا مکان تعمیر کرا لیا جہاں ہر ہفتے وہ نوری کو بلوا لیا کرتا تھا۔
اسی مکان پر رضوان نے ایک رات اس سے نقاب کی کہانی پوچھی تو نوری نے حیرت انگیز طور پر جارحانہ جواب دینے کے بجائے صرف اتنا بتایا کہ اس کے محبوب شوہر نے مرتے وقت وعدہ لیا تھا کہ اس کا چہرہ کوئی غیرمحرم نہیں دیکھے گا، اسی لیے وہ اپنا چہرہ کسی کو نہیں دیکھنے دیتی۔ اس نے بتایا کہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کئی باتیں کرتے ہیں مگر وہ خاموشی سے سنتی رہتی ہے۔
رضوان نے یہ بات سننے کے بعد دوبارہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ دھیرے دھیرے ان کے درمیان جسم کا تعلق دل کے رشتے میں بدلتا گیا اور ایک وقت آیا جب ہر رات اسے یہ خیال تکلیف دینے لگتا کہ نوری نہ جانے کس کے بستر پر ہو گی۔
بہت سوچ بچار کے بعد ایک رات اس نے نوری کو پیشکش کی کہ وہ ماہانہ رقم کے عوض صرف اس کے لیے مخصوص ہو جائے۔ رضوان کا خیال تھا کہ وہ اس کی بات نہیں مانے گی اور اگر اس نے تسلیم کر بھی لی تو رقم بڑھانے پر اصرار کرے گی مگر نوری تو جیسے اسی پیشکش کی منتظر تھی، اس نے بغیر کوئی ردوقدح اور مول تول کے ہاں کہہ دی اور پھر سب نے دیکھا کہ اس نے اپنی بات پوری وفاداری کے ساتھ نبھائی۔ رضوان کے دل میں اس کی چاہت مزید بڑھ گئی۔
جب بات علاقے میں پھیلی کہ نوری سب کے لیے ایک شجر ممنوعہ کی صورت اختیار کر گئی ہے تو ایک دم سے اس کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔ بے شمار لوگوں نے اسے اپنے پاس بلانے کی کوشش کی، بڑی بڑی رقوم اور تحائف کی پیشکش کی مگر نوری نے سب کو ٹکا سا جواب دے دیا اور اپنے چھوٹے سے مکان تک محدود ہو گئی۔ جب بھی رضوان کا ڈرائیور اسے لینے آتا وہ خاموشی سے چلی آتی اور رات گزار کر صبح واپس چلی جاتی۔ دن کو ان کا موبائل فون پر ہر وقت رابطہ رہتا، دونوں کے درمیان عاشق و محبوب سا تعلق بن گیا تھا جس میں یہ امتیاز کرنا مشکل تھا کہ کون عاشق ہے اور کون محبوب۔
چوہدری کریم اور چوہدری نواز نے جب دیکھا کہ نوری ان کے ہمسائے زمیندار تک محدود ہو گئی ہے تو ان کی جاگیردارانہ انا کو چوٹ لگی۔ انہوں نے بھی نوری کو بلانے کے لیے ہر طرح کی پیشکش کی مگر نوری نے انکار کر دیا جس کے بعد انہوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں مگر ان کی دال پھر بھی نہ گلی۔
رضوان کو بھی ان معاملات کی اطلاعات ملتی رہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دونوں چوہدریوں کے ساتھ تعلقات سرد مہری اختیار کر گئے۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بگڑے مزاج کے اوباش لوگ ہیں اور آسانی سے ہار نہیں مانیں گے۔ اس نے اڑتی اڑتی خبریں سنی تھیں کہ وہ اپنے دوستوں سمیت نوری کے گھر میں گھس کر اس کا غرور توڑنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
رضوان کو ان خبروں پر اتنی تشویش ہوئی کہ اسے خود پر حیرت ہونے لگی، اس نے کئی بار اپنے آپ کو سمجھایا کہ ایک طوائف کا کیا غرور اور اگر اس کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آ بھی گیا تو کون سی قیامت برپا ہو جائے گی، مگر اس کے دل کو ہر وقت اندیشے جکڑے رہتے تھے۔ آخرکار اس نے ہار مان لی اور ایک بڑا فیصلہ کر لیا، آج رات وہ نوری کے ساتھ اسی کے متعلق بات کرنا چاہتا تھا۔
رات کے اندھیرے میں جب اس کا ڈرائیور نوری کو لے آیا اور دونوں کمرے میں تنہا ہو گئے تو رضوان نے کہا کہ وہ ایک اہم بات کہنا چاہتا ہے۔ اس کے چہرے کی سنجیدگی سے نوری گھبرا گئی اور بے خیالی میں اس کا ہاتھ اپنے نقاب کے کونے پر پہنچ گیا۔ یہ اس کا خاص انداز تھا، جب بھی وہ کسی پریشانی میں ہوتی تو مضبوطی سے نقاب کو تھام لیتی۔
رضوان اس کی پریشانی بھانپ گیا اور اپنی تمہید کو چھوڑ کر صاف لفظوں میں اسے شادی کی پیشکش کر دی۔ اس کا خیال تھا کہ نوری خوشی سے بے حال ہو جائے گی یا پھر شرما جائے گی مگر نوری کا ردعمل بہت غیرمتوقع تھا، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور اس کے دوسرے ہاتھ نے بھی نقاب کو جکڑ لیا۔ رضوان پریشانی اور بدحواسی کے عالم میں اس کی یہ حالت دیکھتا رہا۔
نوری کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا کہ وہ شادی نہیں کر سکتی۔ چوہدری کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، اس نے انکار کی وجہ پوچھی تو نوری نے وجہ بتانے سے بھی انکار کر دیا۔
چوہدری نے سنبھل کر اپنا وہ انداز اپنایا جس کے ذریعے وہ اپنی دلکش شخصیت کے زور پر لوگوں کو قائل کر دیا کرتا تھا۔ اس نے مسکراتے چہرے پر محبت بکھیر کر سمجھانا شروع کر دیا لیکن وہ نوری جو اس کی ہر بات بغیر پس و پیش کے مان لیا کرتی تھی، آج پہلی بار انکار پر ڈٹ گئی۔ چوہدری نے اصرار شروع کیا اور وہ انکار میں سر ہلاتی رہی۔ چوہدری کے تمام دلائل، سب کاوشیں رائیگاں گئیں اور نوری نہ مانی۔
آخر رضوان نے اسے حتمی لہجے میں دھمکی دی کہ اگر وہ وجہ نہیں بتائے گی تو ان کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ نوری کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی، پھر اس نے ایک ہارے ہوئے جواری جیسےلہجے میں ایک بار پھر التجا کی کہ وہ اس کی بات مان لے اور رشتے کو اسی طرح قائم رہنے دے۔ مگر رضوان بھی اپنی ناکامی کی وجہ سے ضد میں آ گیا تھا۔
نوری کی خوبصورت آنکھوں میں نمی اتری، کچھ دیر وہ سر جھکائے ٹھنڈی آہیں بھرتی رہی، پھر اس نے ایک دم سے سر اٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے اپنا نقاب اتار دیا۔ رضوان کی آنکھیں خوف اور بے یقینی سے منجمد ہو گئیں کیونکہ نوری کا چہرہ جلا ہوا تھا، ناک کی جگہ صرف دو سوراخ نظر آ رہے تھے، ہونٹ غائب تھے اور وہاں سے دانت باہر نکلے نظر آ رہے تھے۔ جن رخساروں پر پھیلی سرخی دیکھنا رضوان کی سب سے بڑی تمنا تھی، ان پر کریہہ شکل کی جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔
نوری نے نقاب دوبارہ اوڑھ لی اور جھکے سر کے ساتھ سسکیاں لیتے ہوئے بتانے لگی کہ اس کی شادی کبھی نہیں ہوئی تھی، اس کی منگنی ہوئی تو ایک چاہنے والے نے انتقاماً اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تھا، نوری کا چہرہ بگڑ کر خوفناک ہو گیا تو بہانے بہانے اس کے گھر کے چکر لگانے والا منگیتر بھی ساتھ چھوڑ گیا، اس کا باپ پہلے سے مر چکا تھا۔ ماں بھی یہ صدمہ نہ سہہ پائی اور چند ماہ میں ہی چل بسی۔
پھر جس دن نوری نے اپنے سابقہ منگیتر کی شادی کی خبر سنی، اس نے وہ علاقہ چھوڑ دیا اور جسم فروشی کا دھندا شروع کر دیا۔ وہ کچھ عرصہ ایک علاقے میں رہتی اور پھر ایسا دن ضرور آتا جب کوئی زبردستی اس کا نقاب ہٹا دیا کرتا تھا جس کے بعد اس کے پاس وہ علاقہ چھوڑ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا تھا۔
اس نے کہا کہ صرف رضوان تک محدود ہو جانے کی بھی یہی وجہ تھی کہ اسے نقاب ہٹنے کا خطرہ نہیں تھا اور وہ ایک علاقے میں طویل عرصے کے لیے رہ سکتی تھی۔
اس کی داستان سنتے وقت چوہدری رضوان کے چہرے نے کئی رنگ بدلے۔ نوری چپ ہوئی تو اس کے سینے کی دھڑکنوں کے ساتھ ساتھ گزرتی رات کے لمحے بھی رک گئے، دونوں چوہدری کی آواز کے منتظر تھے جس کے چہرے پر فیصلے الٹ پلٹ ہو رہے تھے۔ کچھ دیر اذیت ناک خاموشی طاری رہی، فقط وقفے وقفے سے کتوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
اعصاب شکن خاموشی کے بعد چوہدری رضوان نے جیب سے موبائل نکالا، ایک نمبر ملایا اور دوسری جانب رابطہ ہونے پر سرد آواز میں پوچھا
"چوہدری کریم! تمہارے ڈیرے پر اس وقت کتنے لوگ بیٹھے ہیں؟
نوری نے اپنا جھکا ہوا سر تیزی سے اٹھایا، اس کے دونوں ہاتھ نقاب پر پہنچ گئے اور آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ مگر چوہدری اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، دوسری جانب جواب سننے کے بعد وہ سپاٹ لہجے میں بولا
” سب کو لے کر میرے ڈیرے پر آ جاؤ۔ آج رات اور کل کا دن نوری تمہاری ملکیت ہے۔ جتنے دوست بلانا چاہو بلا لو”
نوری کا جسم تھرتھر کانپنے لگا مگر چوہدری اس کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا، اس نے فون پر کہا،
"میں مذاق نہیں کر رہا، لیکن نوری کا نقاب نہیں اترنا چاہیے”
اس نے فون بند کیا اور دوسرا نمبر ملانا شروع کر دیا۔
فون ملتے ہی اس نے بغیر تمہید کے اپنا فقرہ دہرایا ” چوہدری نواز! تمہارے ڈیرے پر اس وقت کتنے لوگ موجود ہیں؟”