یہ مصرعہ مُرشدی مرزا غالب نے تو کسی اور تناظر میں کہا تھا مگر اس کے اندر ایک ایسی آفاقیت ہے کہ آپ اسے حسبِ ضرورت کُھلے دل سے کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں اور لُطف کی بات یہ ہے کہ اس کی سچائی ہر حال میں قائم رہتی ہے۔
اقوالِ زریں یا سنہری باتیں وغیرہ کے عنوانات کے تحت جو باتیں مختلف حوالوں سے ہم تک پہنچتی رہتی ہیں، اُن میں سے اگرچہ کچھ زیادہ ’’سُنہری‘‘ نہ بھی ہوں تب بھی یہ بات اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے۔ آج کل کئی ریڈیواور ٹی وی پروگراموں کے درمیان یا ان کے آخر میں بھی اینکر حضرات اسی مفت کے مال سے بہت اچھا کام لے رہے ہیں۔
اس ضمن میں عزیزی جنید سلیم اس لیے زیادہ کامیاب ہیں کہ وہ پتے کی بات کو صرف فلسفیانہ خیالات یا عقلی ترجیحات تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اس میں مزاح اور اپنی مسکراہٹ کو بھی اس طرح سے شامل کردیتے ہیں کہ سننے والا صرف توجہ سے سنتا ہی نہیں بلکہ حسبِ توفیق سمجھتا بھی ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک دو کالموں میں دنیا بھر کے ادیب ، لوک ادب اور مشاہیر کے اقوال سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ ایسے جملے ، باتیں اور معاشرتی تجزیے جمع کیے تھے جو میرے نزدیک ایسے دانش پارے تھے جن کو خلقِ خدا اور ذہنِ رسا تک پہنچانا ایک خوبصورت فریضہ تھا اور جس کے ساتھ یہ ٹیگ لائن بھی چل رہی تھی کہ ’’مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے؟‘‘آج کے انتخاب میں چند ایک ایسے مزاحیہ اور طنزیہ اقوال بھی اس لیے شامل کر دیئے ہیں کہ وہ حالاتِ حاضرہ جن کی گونج کئی سال سے ایک ہی لے میں سنائی دے رہی ہے۔
یہ ان کی روحِ رواں ہیں۔ آپ انھیں فِرنی کی پلیٹ کے اُوپر ڈالے گئے بادام اور پستے سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں کہ جن سے ذائقہ بدلے نہ بدلے مگر اس کی صُورت اور بہترہوجاتی ہے اور فرض کیجیے ایسا نہ بھی ہوتو’’مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے‘‘ سو پہلے کچھ خیال افروز باتیں ۔ انھیں پہلی بار کہنے والوں کے نام اس لیے حذف کیے جارہے ہیں کہ ایک تو یہ فہرست نامکمل ہے اور پھر اب یہ انسانیت کے اس اجتماعی ورثے کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر ہوا ، دُھوپ اور چاندنی کی طرح سب کا برابر کا حق ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ ان میں موجود دانش کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتے ہیں اور کچھ صرف سنتے یا پڑھتے ہیں۔
1)ہجوم سے بچو، چیزوں کے بارے میں خود غور کر کے رائے قائم کرو، شطرنج کے کھلاڑی بنو، مہرے نہیں۔
2)اکثر اوقات ہم اپنے ماضی کی ایسی یادوں کو اُٹھائے پھرتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور یوں کل کے دُکھ ہماری آج کی خوشیوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ ماضی میں جو ہوگیا سو ہوگیا اور اب اُسے بدلنا بھی ممکن نہیںاور اگر اب یہ صرف تمہاری یادوں اور ذہن کے کسی گوشے میں جاگزین ہیں تو انھیں آزاد کردو اور خود بھی آزاد ہوجاؤ ۔
3)اگر ہم ’’مشکلات‘‘ پر نظر رکھیں گے تو مشکلات بڑھ جائیں گی، اس کے برعکس اگر ہم ’’ممکنات‘‘ پر نظر رکھیں گے تو ممکنات میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔
4) ایک سچا دوست وہ ہے جو تب آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے جب دوسرے چھوڑ کے جارہے ہوں ۔
5) اُس سے محبت مت کرو جو صرف اچھی اچھی باتیں کرتا ہے، اُس سے محبت کرو جو اُن پر عمل بھی کرتا ہے۔
6)آپ کی گزشتہ عمر اور اُس سے جُڑی ہوئی یادیں آپ کے پیچھے ہیں جب کہ آپ کی زندگی ہمیشہ آپ کے آگے کی طرف ہوتی ہے ۔ آج کا دن ایک نیا دن ہے اس کے ساتھ چلو۔
7) اپنے آدرش ، اپنی محبت اور اپنے خوابوں کو اپنے تک رکھو کیونکہ دنیا ہر خوب صورت چیز کو برباد کردیتی ہے ۔
8) زندگی، محبت اور انا کی ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش اور تضاد کا آئینہ ہے ۔ محبت ہمیشہ معاف کرنے اور انا دوسروں سے معافی منگوانے کی طلب گار ہوتی ہے۔
9) انسانیت ایک بہت بڑا خزانہ ہے، اس کو لباس میں نہیں ’’انسان‘‘ میں تلاش کیا کرو۔
10) جتنا بھی کسی کو پرکھو گے اندر سے ٹوٹتے جاؤ گے، اس لیے لوگوں سے صرف پیار کرو، انھیں آزمانے اور پَرکھنے کی کوشش نہ کرو ۔
11) ایک نابینا شخص نے کسی عقل مند سے پوچھا، کیا دنیا میں اندھا ہونے سے زیادہ بھی کوئی بدنصیبی کی بات ہے؟ جواب ملا ’’ہاں‘‘ جب آپ کے پاس دیکھنے کے لیے کچھ نہ ہو۔
12) اس عبارت کو روانی میں پڑھیے اس میں بیشتر الفاظ کے ہجے غلط ہیں لیکن اس کے باوجود اس کا مفہوم مکمل طور پر آپ کی سمجھ میں آرہا ہے، یہی صورتِ حال محبت کی زبان کی بھی ہوتی ہے ۔
Waht is rael reltionship? I m gving you an exmpl: jsut c tihs mss.
if u wnat true relationship! Jsut , ignoer mistaeks.
13) زندگی ایک کتاب کی طرح ہے جس کے دو صفحے مالکِ کائنات نے پہلے سے لکھ رکھے ہیں، پہلا صفحہ ’’پیدائش‘‘اور دوسرا’’موت‘‘درمیان کے تمام صفحات خالی ہیں، انھیں مسکراہٹ اور محبت کے قلم سے بھرو۔
14)سب کو سچ بولنے کی آزادی ہے مگر ایسا کرنے کے بعد کی آزادی ایک الگ مسئلہ ہے ۔
15) کیمسٹ کی دکان پر ٹینشن کی دوائی کے لیے ڈاکٹر کا نسخہ دکھانا ضروری ہوتا ہے ، بیوی کی تصویر نہیں۔
16) 15 ستمبر کو تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں گے اور ان کے SOP’s بھی تیار کر لیے گئے ہیں، ایک دن اساتذہ آئیں گے اور ایک دن طلبہ۔
17) کہتے ہیں جہاں عزت نہ ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔ تو کیا اب بندہ اپنے گھر بھی نہ جائے؟
18) مرد حضرات گھر پردو ہی وجہ سے خوش ہوسکتے ہیں، بیوی نئی ہو یا بیوی نہیں ہو۔
19) اس زمانے کا المیہ یہ بھی ہے کہ شادی ہال میں کرسیاں وہ کپڑے پہنے ہوتی ہیں جو بیٹھنے والوں کے لیے بنے تھے۔
20) میں کب سے پوچھ رہی ہوں تمہاری زندگی میں سب سے بڑی پرابلم کیا ہے، بس مجھے ہی دیکھے جا رہے ہو بتاتے کیوں نہیں؟
21) آگ دونوں طرف برابر ہے ۔ شادیوں پر عورتیں دوسرے کے سُوٹ دیکھ کرجَل رہی ہوتی ہیں اور مرد دوسروں کی بیویاں۔
22) وہ رہنما جو دوسروں کی بات نہیں سنتے بہت جلد ایسے لوگوں میں گھِر جاتے ہیں جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔
23) رعایتی قیمت پر خریدی ہوئی غیر معیاری اشیاء کی خوشی عارضی اور غم مستقل ہوتا ہے۔
24) خوبصورتی اُسی وقت سے پیدا ہونا شرو ع ہوجاتی ہے جب آپ اپنے آپ کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور آخر میں کارل مارکس کی ایک بہت فکر انگیریاد دہانی جو ہر زمانے کے لیے ہے، اس لیے براہِ کرم اسے اپنے اِرد گرد کے کچھ کرداروں تک محدود نہ کیجیے اُس نے کہا تھا۔
25) وہ لوگ جنہوں نے سردی اور گرمی صرف کھڑکیوں میں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتے۔
اب اگر ایسی باتیں مفت میں ہاتھ آجائیں تو کیا بُرا ہے ؟