آذربائیجان آرمینیا تنازع: ترکی آذربائیجان کی حمایت کیوں کرتا ہے؟

[pullquote]ترکی اور آزربائیجان[/pullquote]

فرانس کے صدر امینوئیل میخواں نے کہا ہے کہ انھیں ترکی کی جانب سے جنگی نوعیت کے اشارے ملنے پر سخت تشویش ہے۔

ترکی نے کہا ہے کہ وہ ناگورنو قرہباخ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آذربائیجان کی بھرپور مدد کے لیے تیار ہے۔

ترکی اور فرانس حالیہ مہینوں میں مشرقی بحیرۂ روم میں قدرتی وسائل پر اپنے اپنے دعوؤں کی وجہ سے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ لیبیا میں جاری خانہ جنگی سے متعلق بھی دونوں ممالک میں اختلافات ہیں۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے تنازع پر ہونے والی حالیہ خونریز جھڑپوں میں ترکی نے آذربائیجان کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ صورتحال نے ترکی کو اپنے خارجہ پالیسی کے اہداف کو آگے بڑھانے اور اندرونی طور پر قوم پرستی کے جذبات کو مزید ابھارنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔

28 ستمبر کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے آذربائیجان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے آرمینیا سے کہا تھا کہ وہ آذربائیجان کی سرزمین سے فوراً نکل جائے جس پر اس نے قبصہ کیا ہوا ہے۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازع میں شامل ہونا ترکی کی خارجہ پالیسی کے حالیہ اقدامات میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اس سے پہلے شام اور لیبیا میں مداخلت، عراق میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف جاری کارروائیاں اور مشرقی بحیرۂ روم میں اپنا اثر بڑھانے کی کوشش، خطے میں ترکی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔

[pullquote]ترکی اور آذربائیجان کا ثقافتی تعلق[/pullquote]

ترکی کے عوام میں آذربائیجان کی بڑے پیمانے پر حمایت کی وجہ وہ قریبی تعلقات ہیں جو لسانی، نسلی اور ثقافتی بنیادوں پر قائم ہیں۔

ترکی میں ان تعلقات کے بارے میں کہا جاتا ہے ‘دو ریاستیں ایک قوم’۔

خارجہ پالیسی کے بارے میں ترکی کی قادر حیز یونیورسٹی کے ایک جائزے میں 65 فیصد سے زیادہ لوگوں نے کہا کہ آذربائیجان ترکی کا سب سے قریبی دوست ہے۔ یہ سروے اس سال جون میں کیا گیا تھا۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں ترکی کے اعلیٰ حکام اور میڈیا میں اپنے ‘ آذربائیجانی بھائیوں’ کے لیے زبردست حمایت دیکھنے میں آئی ہے۔

حکومت کے حامی اخبار حریت کے ایڈیٹر ان چیف احمد ہاکن نے 28 ستمبر کو لکھا ‘ہمارے الفاظ ایک جیسے ہیں۔ ہماری ثقافتی بنیادیں ایک جیسی ہیں۔ ہمارے لوک گیت ایک جیسے ہیں۔ حالیہ واقعات کے دوران میں ویسا ہی محسوس کر رہا ہوں جیسا کہ آذربائیجان کے مظلوم لوگ محسوس کر رہے ہیں۔’

[pullquote]اس مرتبہ نیا کیا ہے؟[/pullquote]

90 کی دہائی کے ابتدا میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے معاملے پر جنگ کے دوران ترکی نے آذربائیجان کو اسلحہ دیا تھا اور اپنے فوجی ماہرین بھیجے تھے۔ سنہ 2010 میں دونوں ممالک نے باہمی تعاون اور دفاع کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

اس سال جولائی میں جب آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں تو ترکی نے آذربائیجان کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط کر لیے۔

29 جولائی سے اگست کے وسط تک ترکی اور آذربائیجان کی زمینی اور فضائی افواج نے آذربائیجان میں مشترکہ مشقیں کیں۔

ترکی کی دفاعی صنعت کے سربراہ اسماعیل دامر نے اس وقت آذربائیجانی حکام سے کہا تھا کہ ترکی کے ڈرون، گولہ بارود، میزائل اور الیکٹرانک جنگی نظام ہمیشہ آذربائیجان کی کمانڈ میں رہیں گے۔

اطلاعات کے مطابق حالیہ جھڑپوں کے دوران آذربائیجان نے ترکی کے مسلح اور غیر مسلح ڈرون استعمال کیے ہیں۔

ترکی کے ڈرونز کو حالیہ برسوں بین الاقوامی توجہ اس وقت حاصل ہوئی جب انھیں ترکی کی جانب سے شام اور لیبیا میں کارروائیوں اور کرد ملیشیا کے خلاف استعمال کیا گیا۔

آرمینیا نے 28 ستمبر کو کہا تھا کہ ترکی براہ رست اس جنگ میں ملوث ہے اور آذربائیجان ترکی کا اسلحہ استعمال کر رہا ہے جن میں ڈرون بھی شامل ہیں۔ آرمینیا نے ترکی پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ شام کے حکومت مخالف جنگجوؤں کو بھی آذربائیجان منتقل کر رہا ہے۔

[pullquote]ترکی کے اندرونی محرکات کیا ہیں؟[/pullquote]

ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی بڑھتی ہوئی حمایت کے پیچھے اندرونی سیاسی چالوں کا بڑا ہاتھ ہے یعنی ترکی کی موجودہ حکومت اس حمایت کے نتیجے میں سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔

صدر اردوغان کی حکومت سنہ 2008 – 2009 میں آرمینیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر چکی ہے لیکن ناگورنو قرہباخ پر اختلافات کے باعث یہ کوشش ناکام رہی۔

اس کے بعد سے ترکی نے آرمینیا کے بارے میں کافی سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ جبکہ صدر اردوغان کی کوشش ہے کہ اپنی عوامی حمایت میں اضافہ کریں۔ انھیں سنہ 2015 سے انتخابی سیاست میں قدرے مشکلات کا سامنا ہے۔

حالیہ برسوں میں صدر اردوغان کی جماعت اے کے پی نے اپنی اتحادی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ مل کر قوم پرستانہ راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ سنہ 2015 میں امن مذاکرات ناکام ہونے کے بعد سے ترکی کی حکومت کردوں کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ ترکی میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل اور عوامی جائزوں میں صدر اردوغان کی جماعت کے بارے میں خراب اشاروں کے ساتھ حکومت کی خارجہ پالیسیوں میں مہم جوئی اور بیانات میں سخت گیر لفاظی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

[pullquote]آذربائیجان اور ترکی کے تعلقات توانائی سے متعلق تعلقات کتنے اہم ہیں؟[/pullquote]

آذربائیجان ترکی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ ترکی اپنے ضرورت کی توانائی کا ایک بڑا حصہ آذربائیجان سے درآمد کرتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس سال مئی میں ترکی نے اپنی ضرورت کی ایک تہائی گیس آذربائیجان سے درآمد کی۔ آذربائیجان نے اس کے علاوہ بحیرۂ روم میں ترکی کی بندرگاہ سیہین پر بحیرۂ کیسپیئن کا تیل بھی پہنچایا۔

حالیہ برسوں میں گیس کی درآمد کے لیے ترکی کا روس پر انحصار کم ہوا ہے۔ اسی وجہ سے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ روس کی کوشش ہے کہ ترکی اور آذربائیجان کے درمیان توانائی سے متعلق تعاون میں رخنہ ڈالا جائے۔

ترکی کی نیوز ویب سائٹ ہیبرترک کے مطابق ‘روس کے ساتھ ہمارا گیس کا معاہدہ سنہ 2021 میں ختم ہو رہا ہے۔ جس کے بعد ہم ’ٹرانس ایناتولیئن گیس پائپ لائن‘ کے ذریعے اپنی گیس کی ضرورت کو آذربائیجان سے پورا کریں گے۔ یہ پائپ لائن آذربائیجان کی گیس کو یورپ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ روس کے لیے یہ صورتحال کافی ہے کہ وہ آذربائیجان اور آرمینیا کی سرحد پر مسئلہ پیدا کرے۔’

نیوز ویب سائٹ ہیبرترک کے کالم نگار کرساد زورلو نے بھی ترکی اور آذربائیجان کے توانائی سے متعلق تعلقات کو خطے میں ترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے منسلک کیا ہے۔

‘اس وقت صرف آذربائیجان کی خودمختاری ہی داؤ پر نہیں لگی ہوئی بلکہ ترکی کی توانائی کی ضروریات اور خطے میں اس کا مقام بھی خطرے میں ہے۔’

[pullquote]کیا روس نیا محاز ہے؟[/pullquote]

بعض مبصرین کے خیال میں قفقاز خطے میں ترکی کی مداخلت سے اس کا روس کے ساتھ ایک نیا محاز جنگ کھل جائے گا، دونوں ممالک پہلے ہی شام اور لیبیا میں مدِ مقابل ہیں۔

ترکی میں قفقاز خطے کو روایتی طور پر روس کے زیرِ اثر سمجھا جاتا ہے اور اس وقت عام طور پر یہی سمجھا جا رہا ہے کہ روس آرمینیا کی حمایت کر رہا ہے۔ روس اور آرمینیا ایک دفاعی معاہدے میں بھی شامل ہیں۔ ترکی کی سرحد کے پاس اور آرمینیا کے شہر گیومری میں روس کا ایک فوجی اڈہ بھی ہے۔

حریت اخبار کے صحافی عبدالقادر سلوی لکھتے ہیں کہ ‘حالیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ خطے کے دو بڑے ممالک روس اور ترکی کے بغیر اس خطے میں صورتحال کو معمول کے مطابق نہیں رکھا جا سکتا۔’ اخبار کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پوتن آرمینیا پر بہت زیادہ اثر رکھتے ہیں۔

عبدالقادر سلوی لکھتے ہیں کہ ترکی نے قفقاز میں اقدامات کرتے ہوئے ہمیشہ روس کو ایک بڑی حقیقت کے طور پر ذہن میں رکھا ہے۔ ‘ترکی محاز آرائی کے بجائے تعاون کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن روس کی جانب سے ایسا رویہ دیکھنے میں نہیں آتا۔‘

نیوز ویب سائٹ ہیبرترک میں صحافی نیگیہان آلسی لکھتے ہیں کہ روس اس صورتحال سے خوش ہے کیونکہ ان جھڑپوں کے نتیجے میں آرمینیا کی انتظامیہ میں اگر کوئی روس مخالف سوچ تھی تو اس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

[pullquote]آگے کیا ہو گا؟[/pullquote]

ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت کی وجہ سے جنوبی قفقاز بھی خطے کے ان علاقوں میں شامل ہو گیا ہے جہاں تنازعات سر اٹھا رہے ہیں اور جہاں ترکی کی خارجہ پالیسیوں کا اثر ہے۔

ایک طرف تو روس، ایران، یورپی یونین اور امریکہ نے جنگ بندی اور تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ تاہم دوسری طرف ترکی کی وزارتِ خارجہ نے آذربائیجان کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

آنے والے دنوں میں چاہے اس تنازع میں تیزی آئے یا کمی، سیاسی حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آذربائیجان کے لیے ترکی کی حمایت جاری رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے