زندگی کی ٹھوکریں

وہ کئی دنوں سے اپنے جسم میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو دیکھ رہی تھی ۔ لیکن اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اپنے جسم میں ہونے والی اس تبدیلی کو اپنے خاندان میں کسی سے شیئر کرتی ۔ فائزہ اس تبدیلی کو اپنی کسی دوست کے ساتھ بھی شیئر کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھی ۔ اسکی چھاتی کے اندر ایک گھٹلی سی محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن باہر اسکے کوئی آثار نہیں تھے ۔ فائزہ کبھی اپنےآٓپ کو مطمئن کر لیتی اور کبھی طرح طرح کی سوچیں اسے پریشان کردیتیں۔ انہی سوچوں میں دو سال گذر گئے ۔ اب فائزہ کو محسوس ہوا کہ یہ گٹھلی اب کچھ بڑی ہونے لگی ہے ۔

اسی دوران فا ئزہ کی خاندان میں ہی ایک پڑھے لکھے نوجوان سلمان سےمنگنی کردی گئی۔ رشتہ پکا ہونے کے ساتھ ہی فائزہ کو پریشانیوں نے گھیر لیا کہ نہ جانے شادی کے بعد شوہر اس چیز کو کس طرح لے گا ۔ وہ اسے اپنا لےگا یا یہ معلوم ہونے کے بعد اسے چھوڑ دے گا ۔ انہی فکرات کےساتھ فائزہ اپنے نئے گھر سدھار گئی ۔ شادی کے کچھ روز بعد ہی فائزہ کے خاوند کا مودڈ کچھ بجھا بجھا سا رہنے لگا ۔ سلمان کی امی بھی اس بات سے پریشان ہو گئیں کہ شادی کے چند دنوں کے اندر ہی اسکے بچے نے کس روگ کو پالیا۔ ماں نے کئی بار سلمان سے پریشانی کی وجہ پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ کوئی کاروباری پریشانی کا بتا کر کنی کتراجاتا ۔

فائزہ کی ساس نے نئی نویلی دلہن سے بھی کھوج لگانے کی کوشش کی اور کئی بار اشاروں کنایوں میں سلمان کی پریشانی کا تذکرہ کیا ۔ جس کا فائزہ کے پاس کوئی جواب نہین تھا ۔ اب فائزہ کی پریشانی مزید گہری ہوگئی ۔ کہ ایک طرف سلمان بھی خاموش سا رہنے لگا ہے اور دوسری جانب اسکی ساس بھی فائزہ پر شک کرنے لگی ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے ۔ فائزہ اس بات کو کیسے شیئر کرتی گاؤں کے ماحول میں پلی بڑھی، فائزہ شرم و حیا کی وجہ سے یہ بات کسی سے بھی شیئر کرنے سے گھبراتی تھی ۔

آخر کار سلمان نےایک دن ماں کو بتایا کہ اسکی بیوی کی چھاتی میں کوئی گھٹلی ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ کوئی کینسر زدہ بیوی لے آیا ہے۔ ماں کے مشورے پر سلمان فائزہ کو حیدرآباد کے ایک بڑے سرکاری اسپتال لے گیا۔ جہاں مختلف ٹیسٹ اور بائیواپسی کے بعد سلمان کو معلوم ہوا کہ اسکی بیوی کو چھاتی کا کینسر ہے ۔ جو درمیانے اسٹیج پہ ہے ۔

سلمان نے جیسے ہی یہ بات گھر میں بتائی ۔ ماں کی نظریں ایک دم فائزہ سے بدل گئیں ۔ اور وہ سوچنے لگٰیں کہ دلہن کے بجائے ایک کینسر زدہ مریضہ کو بیاہ کر لائے ہیں ۔ اب اس مریضہ کے خرچے گھر کے اخراجات کو بڑھا دینگے اور گھر والوں نے جو ترقی کا خواب دیکھا تھا وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائےگا۔

ایک دن ماں نے سلمان کو سمجھایا کہ بیٹا میری مانو تو اس کینسر کی مریضہ سے ابھی سے جان چھڑا لو۔ اس نےایک دن مرہی جانا ہے۔ خرچے برداشت کرکے اپنا کیوں نقصان کریں۔ سلمان بھی ماں کی لائن پر ہی سوچنے لگا۔ اسکو سراسر فائزہ اور اسکے گھر والوں کا قصورنظرآیا ۔ کہ انہوں نے شادی سے پہلےاس مرض کوچھپایا۔ مرض کا نہ تو فائزہ کو پتا تھا نہ اسکے گھر والوں کو ۔ فائزہ کی زندگی اب پل صراط پر آگئی۔ اسے اپنی دنیا اندھیر لگنے لگی ۔ اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ۔ اورایک دن سلمان نے فائزہ کو تین لفظ سنا کر اسکے میکے واپس بھیج دیا۔

فائزہ جیسے ہی گھر پہنچی اسکی اتری ہوئی شکل دیکھ کر ماں کے پیروں تلے تو زمین ہی نکل گئی ۔ فائزہ نے ماں کے گلے لگ کو پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا ۔ ماں بھی رونے لگی ۔ کچھ دیر بعد فائزہ نےماں کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا۔ فائزہ اب اپنی ماں کے گھر میں گم صم ایک کمرے میں پڑی رہتی یا کہانیاں پڑھ کردل کو بہلانے کی کوشش کرتی۔ انٹرنیٹ پرکینسرکےعلاج کوڈھونڈنےاور اس پر موجود مواد پڑھنے کی کوشش کرتی۔

ایک دن فائزہ کو پنک ربن کے بارے میں پتہ چلا جوچھاتی کے کینسر میں علاج کیلئےتعاون کرتےہیں ۔ فائزہ اپنی ماں کے ساتھ اسپتال گئی ،جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسکا کینسر ابھی ابتدائی درجے کا ہے اور علاج سےجان بچائی جاسکتی ہے۔ فائزہ کا ہنستا بستا گھر تو اس بیماری نے اجاڑ دیا لیکن ریڈیو تھراپی ارو کیمو تھراپی کے بعد فائزہ اب زندگی کی طرف لوٹنے لگی ہے اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کرزندگی کی مشکلات کو شکست دینے کا عزم اب فائزہ کیلئے امید کی کرن بن چکا ہے۔ زندگی کی ٹھوکروں نےفائزہ کوسکھایاہے، ہمت اور حوصلے کی دولت ہی زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے۔

یہ کہانی صرف ایک فائزہ کی نہیں بلکہ پاکستان میں ایسی ہزاروں خواتین کی ہے، جن کی زندگی ان مشکلات سے دوچار ہے۔ چھاتی کے کینسر کے حوالے سے پاکستان ایشیائی ملکوں میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں سالانہ چھاتی کے کینسر کے نوے ہزار کیس رپورٹ ہورہے ہیں۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کی زندگی چھاتی کےکینسر کےخطرے سے دوچار ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 50سے 64 سال کی خواتین میں چھاتی کے کینسر کے امکانات بہت ذیادہ ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی تعداد جوکہ سال 2020 میں 23.1 فیصد ہے، سال 2025 تک 60.7 فیصد تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ نوجوان خواتین جن کی عمریں 30 سے 34 سال کے درمیان ہے میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خدشہ 70.7 فیصد سے بڑھ کر سال 2025 میں 130.6 فیصد تک ہونے کا خدشہ ہے۔

عالمی سطح پر ہر چار میں سے ایک خاتون چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہورہی ہے، جوکہ پھیپھڑوں کے کینسر کے بعد سب سے ذیادہ ہے۔ چھاتی کے کینسر کی مختلف اقسام ہیں۔ جس میں سے ذیادہ ترغیر جارحانہ کینسر ہوتا ہے اور نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔ جبکہ  جارحانہ چھاتی کا کینسرقریبی جسم کے اعضاء میں بھی پھیلتا ہے۔ سائنسدان ابھی تک چھاتی کے کینسر کے پھیلنے کی وجوہات کا حتمی تعین نہیں کرسکے ہیں۔  ماہرین کے مطابق چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کی وجوہات میں عمر ، تولیدی صحت کی تاریخ ، موروثیت یا طرز زندگی ہوسکتے ہیں۔

چھاتی کے کینسر کے علاج کے لئے سرجری، کیموتھراپی، ریڈیو تھراپی، ہارمونل تھراپی، اور ادویات شامل ہیں۔ اب تک چھاتی کے کینسر کے علاج کے لئے ہرسپینٹن انجکشن نہایت کار آمد اور موثر ثابت ہورہا ہے۔  پاکستان میں اس انجکشن کی قیمت ایک لاکھ تیس ہزار130000 روپے فی انجکشن ہے۔

فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرعائشہ ٹمی حق کا کہنا ہے کہ  اس وقت جان بچانے والی ادویات کے کمیکلز کوبھارت سے درآمد کیا جارہا ہے۔ جبکہ حکومت پاکستان کی پالیسی ہے کہ ادویات کے کمیکلز کو بھی مقامی سطح پر تیار کیا جائے۔ اگر مذکورہ کیمکلز کوبھارت کے بجائے کسی اور ملک سے درآمد کیا جائے تو دوائی کی قیمت 1000گنا بڑھ سکتی ہے۔ جس سے چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کے علاج میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

چھاتی کے کینسر کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ مہنگی ادویات اور علاج کےعلاوہ تاخیر سے تشخیص بھی ہے۔ سال 2018 میں کی جانے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس بیماری کی علامات سے متعلق لوگوں میں بہت سے شکوک و شہبات اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔  خواندگی، سماجی درجہ بندی اورغربت چھاتی کے کینسر کے علاج میں تاخیر کی بڑی وجوہات ہیں۔ اس مرض کی جلد تشخیص سے 90 فیصد زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں ۔

آغا خان اسپتال کے ماہرین کے مطابق چھاتی کے کینسر کی جلد تشخیص اسکے موثر علاج کیلئے اہمیت رکھتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہر ماہ باقائدگی سے ذاتی معائنہ کرانا ، بیس سال کی عمر کے بعد چھاتی کا کلینیکل ٹیسٹ کرانا ، اور ابنارمل بڑھوتری کو روکنے کیلئے چھاتی کا ایک مخصوص ایکسرے کرانا، الٹرا ساونڈ، ایم آر آئی اور چھاتی کی بائیواپسی کرانا مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔

چھاتی کے کینسر کے مذکورہ أسباب،علامات اور علاج کے نکات چھاتی کے کینسر کی آگاہی کیلئے منعقدہ تقریب میں پیش کئے گئے،جس کا اہتمام دوائی ڈاٹ پی کے نے کیا تھا ۔۔خواتین کیلئے مخصوص اس تقریب کا اہتمام دوائی ڈاٹ پی کے کے ھیڈ آفس کراچی میں کیا گیا ۔ جس میں چھاتی کی معروف سرجن ڈاکٹر شیریں لاکھانی نے خواتین کی صحت اور خود تشخیصی آگاہی مواد پیش کیا۔

طبی حوالے سے پاکستان کے مایہ نازڈجیٹل پلیٹ فارم دوائی میڈیکل بلاگز اور سوشل میڈیا چینل کے ذریعے طبی آگاہی پھیلا رہی ہے ۔اس موقع پر تقریب سے دوائی کی شعبہ عوامی رابطہ کی سربراہ ندا محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحت کی آگاہی سے لوگوں کو اپنے علاج معالجے اور طرز زندگی سے متعلق فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی ہے ، جس میں غذائی انتخاب ،نیند کا دورانیہ اورازخود علاج کے بجائےڈاکٹر سےرجوع کرنے جیسے اہم أمور شامل ہیں۔ تقریب میں جمع ہونے والے تمام عطیات چھاتی کے کینسر کے علاج کیلئے سرگرم تنظیم پنک ربن پاکستان کو دیئے گئے۔ حکومت پاکستان نے ماہ ،اکتوبرکو چھاتی کے کینسر کی آگاہی کا مہینہ قرار دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے