[pullquote]گلبدین حکمت یار کے دورہ پاکستان کا کیا مطلب ہے؟[/pullquote]
اس ملک میں گلبدین حکمت یار کے سماجی ، سیاسی اور کاروباری تعلقات کئی دہائیوں سے پھیلے ہوئےہیں . ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ کی نسبت گلبدین حکمت یار کا معاملہ مختلف ہے . ستمبر میں ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا جو کئی حوالوں سے اہم دورہ تھا تاہم ان کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا .
ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ نے پاکستان میں اعلی شخصیات سے ملاقاتیں کیں . اہم اداروں میں گفتگو کی اور اپنے دورے میں مثبت تعلقات اور مثبت پیش رفت کے اشارے دیے . انہوں نے غیر معمولی حالات میں مثبت ماحول پیدا کرنے کی بات کی . افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کے تعاون اور کردار کو سراہا ، اعتماد سازی کے لیے مزید اقدامات پر زور دیا اور ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی . بدگمانیوں اور غلطیوں کو دور کرنے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی بات کی .
[pullquote]گلبدین حکمت یار کے دورے کے حوالے کچھ قابل غور نکات[/pullquote]
پہلی بات تو یہ ہے کہ کابل کیوں کسی ایسے شخص کو اہمیت دے گا جس کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہو کہ وہ متنازعہ اور موقع پرست ہے . اس نے طاقت کے حصول کے لیے بے رحمانہ انداز میں کابل کو تباہ کیا .
دوسری بات یہ ہے کہ اشرف غنی اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود جنگ سے متاثرہ افغانستان کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ صدر ہیں جبکہ انہیں پاکستانی لیڈروں سے کے ساتھ کندھا ملانے کے لیے اشرف غنی کے خلاف بیان بازی کرنی پڑتی ہے .
تیسری بات یہ ہے کہ حکمت یار نے اسلام آباد میں بیٹھ کر ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے بارے میں کہا کہ ان کی حیثیت اشرف غنی کے ایک تنخواہ دار سے زیادہ کچھ نہیں اور نا ہی ان کی اس وقت کوئی سیاسی حیثیت ہے .
چوتھی بات یہ ہے کہ کیا گلبدین حکمت یار نے اپنے جارحانہ بیانات کے لیے غلط جگہ کا انتخاب نہیں کیا اور ان کی وجہ سے کیا دوسرے اسٹیک ہولڈرز غنی ، دوحا ، امریکا کے درمیان مفاہمتی عمل میں کیا پاکستانی بیانیے کی کوئی خدمت کی ہے ؟
گلبدین حکمتیار کے ان بیانات نے کابل میں شدید رد عمل پیدا کیا اور پاکستان کے بارے میں پھر سے منفی تبصرے شروع ہو گئے .
ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ کی جانب سے اسلام آباد کے پہلے باضابطہ دورے کے بعد پاکستان نے ویزا سہولیات ، ٹرانزٹ ٹریڈ اور تعلیمی وظائف سے متعلق جو حالیہ اقدامات کر کے مثبت سوچ پیدا کی تھی ، ان پر بھی گلبدین حکمتیار کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے منفی اثر پڑا ہے .
اب اس ساری صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک دانشمندانہ اقدام تھا کہ ریاست کسی متنازعہ رہنما کا استقبال کرے جو یہاں بیٹھ کر اپنے اور امریکا کے صدر کے بارے میں "گل افشانی ” کرے . امن اور مفاہمت کی تمنا کے باجود ان کی گفتگو کا مرکزی دائرہ منفی اور شکوک و شبہات پر ہی مرکوز تھا – بدقسمتی سے یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغانستان کی زمین پر تباہ حال لوگوں کو امن سے لیس مثبت پیغام رسانی کی ضرورت ہے نہ کہ مایوس کرنے والے بیانات کی .
ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔ حکمت یار جیسے لوگ سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دینے کے دعوے سے خود فریبی کا شکار تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ اور کچھ افراد کی خود غرضی کے نتیجے میں ان کے ملک کے ساتھ کیا ہوا ہے؟