میڈیا ضروری ہے؟؟

ملکی سیاسی صورتحال اس وقت ایک پریشان لاوے جیسی ہے جو کسی بھی وقت پھٹنے کو ہے۔اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ اور بیانات جس قدر شدید ہوتے جا رہے ہیں حالات قابو سے باہر نظر آ رہے ہیں۔سابق اسپیکر ایاز صادق کا ایک بیان آج کل بحث کا حصہ ہے۔ حکومت اور سکیورٹی ادارے اس بیان پر جس قدر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ غصہ عام آدمی میں ہے۔

ملکی وقار اور سلامتی کے معاملات پر بڑے سے بڑا ناقد بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔سو مسائل ہو سکتے ہیں سو طرح کے گلے بھی لیکن جہاں بات ملک پہ آئے تو ہمارے لوگ ایک ہو جاتے ہیں۔ہونا بھی چاہئیے یہ ضروری ہے۔ دنیا کو پیغام جاتا ہے کہ زندگی کی رمق ابھی باقی ہے ان میں۔ ایاز صادق کا بیان بلا شبہ ہر لحاظ سے غیر مناسب اور احمقانہ تھا۔

حکومت اور دیگر حلقوں کی جانب سے مذمتی بیانات روزانہ کی بنیاد پہ دئیے جا رہے ہیں۔ افواج پاکستان نے بھی سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ن لیگ کے اندر سے بھی مذمتی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور عنقریب بغاوت بھی۔ بہر حال ن لیگ کے منظر عام پہ موجودہ کرتا دھرتا اس بیان کو چپاتی کی طرح ہلکا سمجھ رہے ہیں۔

انڈین میڈیا نے دو بیانات پہ خوب واویلا مچا رکھا ہے۔ ایک تو ایاز صادق کا بیان ہے دوسرا فواد چوہدری کا اسی تناظر میں جذباتی بیان ہے۔بہر حال حکومت کا پورا زور ایاز صادق والے بیان پہ ہے۔اور یہ صورتحال اس وقت انٹرنیشنل میڈیا پہ زیر بحث بھی ہے۔

بھارتی پائلٹ کی گرفتاری اور اسکی رہائی کے درمیان جس دانشمندی کا مظاہرہ پاکستان نے کیا ہے اسے مختلف ممالک کے تھنک ٹینکس نے باقاعدہ ستائشی نظروں سے دیکھا تھا۔بروقت رہائی پر ملک کے سیاستدانوں اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کو بھی تحفظات تھے البتہ قومی مفاد میں صورتحال کو ہضم کر لیا گیا تھا۔

اب اصل مدعا و مسلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ایاز صادق کے بیان سے زیادہ غصہ انڈین میڈیا کے شور مچانے پہ ہے کہ دشمن ملک کا میڈیا کیوں واویلا کر رہا ہے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا اس معاملے پر میڈیا کو جواب میڈیا کے ذریعے ہی دیا جاتا۔ لیکن کیا کیجئے ہمارے دانشمند کپتان نے میڈیا دشمنی کی مثال قائم کر رکھی ہے۔ وزیر اعظم اور دیگر وزراء نے میڈیا کی تنقید پر جس طرح سے سوشل میڈیا ونگ کو ہلا شیریاں دی وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

اپنے ملکی میڈیا کو کھڈے لائن کر کے اب توقع کی جا رہی ہے کہ پریس کانفرنسز اور بیانات سےملکی میڈیا کو انڈیا کا منہ توڑنے کا کہا جائے۔پاکستانی میڈیا اپنے تئیں یہ سب کر بھی رہا ہے۔ لیکن حکومت سے سوال یہ ہے کہ آپ نے آتے ہی جس میڈیا کا گلہ گھونٹا ہے آج آپکو بیانات کی تشہیر کرنے کے لئے اسی میڈیا کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

آپکے جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے ڈرامے کو بھی اسی میڈیا نے دکھا کر خود پر آپکو مسلط کیا تھا۔آپ نے جو حشر میڈیا ورکرز کا کر رکھا ہے۔اسکے بعد آپ کس طرح سے توقع کر رہے ہیں کہ آپکی ہر ہر بات کو میڈیا کوریج دی جائے۔ خیر یہ تو رہی ہمارے گھر کی اور آپس کی بات۔ بھارتی میڈیا یا انٹرنیشنل لیول پہ پراپیگنڈا کو کاونٹر کرنے کے لئے آپکے پاس مزید کیا آپشن ہے؟؟

آپکو نہیں لگتا کہ باقاعدہ ضابطہ اخلاق اور قوانین کے ساتھ آپکو اپنے ملک کے میڈیا اور صحافیوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے؟؟ آپ دشمن کی سازشوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن عالمی سطح پر خود کو منوانے کے لئے یا ایف اے ٹی ایف سے جان چھڑوانے کے لئے انکی تمام شرائط ماننے کی مجبوری کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ انا پرستی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اپوزیشن بالکل غلط سمت جا رہی ہے۔ خود بھی سوچئیے آپ کس سمت چل رہے ہیں۔ کیا یہ وقت مل بیٹھ کر قومی بیانیہ تشکیل دے کر اسے عالمی سطح پر منوانے کی ضرورت نہیں ہے؟؟؟

ملکی سلامتی اور وقار کے ساتھ نظریات کی حفاظت کے لئے میڈیا کو ساتھ لیکر چلنا وقت کی اہم ضرورت ہے یا نہیں؟؟ شاید آپکے مشیران آپکو غلط پٹی پڑھا چکے ہیں کہ اب آپ وزیر اعظم بن چکے ہیں اسلئے میڈیا اب اہم نہیں ہے۔ یقین مانئیے آپکے مشیر اور آپ خود اس حوالے سے کھلی غلطی پر ہیں۔ جس کا اندازہ شاید آپکو آنے والے وقتوں میں ہو گا۔

سنئیر صحافیوں اور بعض بڑے میڈیا چینلز کا اپوزیشن کی طرف جھکاو بھی آپکے اکھڑے ہوئے مزاج کے باعث ہوا ہے۔ قصہ مختصر بتانا یہ مقصود ہے کہ بھولے بادشاہو ! عالمی سطح پر اور بالخصوص انڈین میڈیا کی بولتی بند کرنے کے لئے آپکا اپنا پاکستانی میڈیا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے