ریحام کے ٹی وی پروگرام کا نام ’’تبدیلی‘‘ ہے؟

ریحام خان پاکستان آ گئی ہے۔ اس کی یہ بات خبروں میں بہت اہم ترین بنی ہے۔ پٹھان ہوں ڈرنے والی نہیں ہوں مجھے لڑنا اور جان دینا آتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ میں بھی پٹھان ہوں۔ نجانے عمران خان کیسا پٹھان ہے۔ اس کا مقابلہ نواز شریف سے ہے جو شریف آدمی ہے۔ کہتے ہیں عمران بہادر آدمی ہے۔ ہو گا؟ مگر بہادر ظالم نہیں ہوتے۔ دو عورتوں کو طلاق دینے والا بہادر نہیں ہو سکتا۔ جو شخص عورت کی بے بسی سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کیسا پٹھان ہے۔ پٹھان تو عورتوں کی عزت کرنے والے ہوتے ہیں۔ بیوی اور ماں آدمی کی ایک جیسی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ ان دونوں سے آدمی کا کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا۔ طلاق کے بعد عورت کا حق مرد پر ہوتا ہے وہ اس کی سابق بیوی ہوتی ہے۔ لوگوں نے ریحام خان کے لئے تکلیف دہ اور گندی باتیں کیں اور عمران خان خاموش رہا۔ ریحام خان نے ٹھیک کہا تم کیسے مرد ہو اے لڑکیوں جیسی عادات والے؟
ریحام خان کی جو بات مجھے پسند آئی اس نے وطن آنے پر کہا کہ میں اپنی ماں کی گود میں آئی ہوں۔ وطن کو مادر وطن کہتے ہیں۔ دھرتی ماتا۔ ہم اپنے وطن کی بیٹی کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
ریحام خان نے کہا کہ وطن واپس آ کے جو عزت مجھے ملی ہے میں کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کے علاوہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سکون اور خوشی ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے لئے عزت اور محبت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ پاکستانی میڈیا ٹھیک ہے۔ میں خود میڈیا کی عورت ہوں۔ بس دو چار آدمی ہیں جنہوں نے پورے کلچر کو بدنام کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی اوقات دکھائی ہے۔
پاکستانی سیاست میں پہلے گندگی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ کس قسم کے گھٹیا لوگ سیاست میں آ گئے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ میڈیا کس طرح اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا۔ ریحام خان نے دوبارہ میڈیا کو جائن کیا ہے۔ کس قدر استقامت کی بات ہے کہ اس نے کسی مشہور اور تجربہ کار چینل کو جائن نہیں کیا۔ بلکہ نسبتاً نئے اور معروف مگر کم مشہور چینل کو جائن کیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے نئے زمانے کا آغاز کیا ہے۔ وہ اپنے اخبار اور چینل کے ہر کمرے میں گئی ممتاز سینئر صحافی اور نوائے وقت کے سابق کالم نگار عطاء الرحمن سے ملاقات کی۔ اس کے ساتھ چینل کے سربراہ چودھری عبدالرحمن کی اہلیہ محترمہ سمیرا رحمان اور نصراللہ ملک بھی تھے۔ ریحام خان کا ہر جگہ پرتپاک استقبال ہوا۔ ایک دلچسپ بات ریحام خان نے کی کہ تبدیلی یہاں سے شروع ہو گی۔ اس کے پروگرام کا نام بھی ’’تبدیلی‘‘ ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان تک بھی خبر پہنچے کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔ لندن میں پہلا تفصیلی اور زبردست انٹرویو بھی اس چینل کے شاندار صحافی مبین رشید نے کیا تھا۔
ریحام خان سواتی کے بہت اعلیٰ خاندان لغمانی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا تعلق مانسہرہ کی تاریخی بستی بفا سے ہے۔ پنڈت نہرو بھی خاص طور پر یہاں آئے تھے۔ ریحام خان کے تایا جسٹس عبدالحکیم خاں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور صدر ضیاء کے زمانے میں صوبہ ’’سرحد‘‘ کے گورنر تھے۔ ان کے تایا زاد عبدالرئوف لغمانی پشاور ہائیکورٹ کے جج تھے اور خیبر پختونخواہ کے الیکشن کمشن کے سربراہ بھی تھے۔ ریحام کا خاندان اعلیٰ روایات کا حامل خاندان ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر نیر خان مانسہرہ کے مشہور اور دردمند ڈاکٹروں میں سے تھے۔
بہت کم خواتین ہوتی ہیں جو طلاق کے بعد نام نہاد مردانہ بے وفائیوں اور ظالم زمانے کا جوانمردی سے مقابلہ کرتی ہیں۔ دلیری اور دلبری دونوں بڑے وقار اور اعتبار کے ساتھ ریحام خان میں موجود ہیں۔ میں بھی پٹھان ہوں۔ پٹھان کی روایات میں شامل ہے کہ وہ عورت کی عزت کرتے ہیں۔ جہاں عورت کی عزت نہیں ہوتی وہ معاشرہ مہذب خیال نہیں کیا جا سکتا۔ پھر عمران خاں کیسا پٹھان ہے؟ پہلی بیوی اپنا وطن اپنا کلچر اپنا تمدن چھوڑ چھاڑ کر آئی تھی۔ دو بچے پیدا کرکے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اتنی اچھی ہے کہ پاکستان میں سب اسے اپنی بہو سمجھنے لگے تھے۔ آج بھی عمران خان لندن میں اس کے گھر جا کے ٹھہرتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں اپنی ساس کے پاس جا کے رہتا ہوں۔ ریحام خان کو پاکستان میں سب لوگ بھابھی کہنے لگ گئے تھے۔ اس نے بہت کوشش کی کہ عمران کا گھر آباد رکھ سکے مگر دوسروں اور دوستوں کے ورغلانے پر اس نے اپنا گھر اجاڑ دیا۔ بیوی کے لئے جو کسی کے بہکاوے میں نہیں آئے گا؟ اس نے ریحام خان کو بھی ایک بے بس بے آسرا عورت سمجھا تھا مگر اب اسے اپنی غلطی بلکہ غلط فہمی کا احساس ہو رہا ہے۔ جب اپنا پروگرام ’’تبدیلی‘‘ ریحام خان شروع کرے گی تو عمران خاں کہے گا تبدیلی آئی نہیں تبدیلی چلی گئی ہے۔
میں ریحام خان کو ایک بات بتاتا ہوں میں اکثر عورتوں کو بتاتا رہتا ہوں۔ عورت وہ ہے جو عورت ہونے کے آنر کو محسوس کرے اور عورت ہونے کے کمپلیکس سے نکل جائے۔ ریحام خان پاکستان کی عورتوں کے لئے ایک رول ماڈل بن سکتی ہے۔ جو کچھ اس نے کہا اور اب وطن واپس آ کے ایک نئی زندگی گزارنے کا اعلان کیا ہے عمران خان اپنا نیا پاکستان اب پرانا بلکہ ’’ادھورانہ‘‘ پاکستان کہاں کہاں چھپائے گا۔
مانسہرہ کا ذکر آتا ہے تو مجھے یاد آتا ہے کہ مریم نواز بھی وہاں بیاہ کے بعد گئی تھیں۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکوں! میں آخری دنوںمیں غلام غوث ہزاروی سے ملا جو بس پر اسمبلی میں آتے تھے۔ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے۔ ان کی قبر کچی ہے اور بفا میں ہے۔ تحریک انصاف کے بانی رکن نوید خان کا تعلق مانسہرہ سے ہے۔ اس کی ماں بفا کی تھی۔ جب وہ تحریک انصاف میں تھا تو کئی دفعہ عمران خان کو بفا میں لے کے گیا۔ اب عمران خان اور نوید خان کی راہیں بھی جدا جدا ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ عمران وفا سے عاری ہے اور عہد کا کچا ہے۔ اس نے ایک عجیب بات کی کہ میں نے عمران خان کو طلاق دے دی ہے۔ عمران نے غفار خان کی ایک لیڈر کے طور پر بہت تعریف کی ہے۔ غفار خان سے پوچھا گیا کہ پٹھان کیسی قوم ہے اس نے کہا یہ ایسی قوم ہے کہ پیار محبت سے اسے بے شک دوزخ میں لے جائو مگر سختی اور دھونس سے یہ جنت میں بھی نہیں جائے گی۔ ریحام خان نے عمران خان کے ساتھ زندگی دوزخ میں گزاری اور پھر عمران کی بے وفائی سے اس کی ’’جنت‘‘ بھی چھوڑ دی۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ تھپڑ تو ریحام خان نے عمران خان کو مارا تھا؟ یہ پتہ نہیں کہ دائیں ہاتھ سے یا بائیں ہاتھ سے۔ واقعہ کیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہے مگر وہ نہیں بتانا چاہتی تو میں کیوں بتائوں؟ ’’انٹرویو‘‘ کافی عمران خان سے ہو گئے ہیں مگر میری گزارش ہے کہ اب انٹرویو کا مزا ہی کچھ اور ہو گا۔ عمران کی مجبوریاں اور شرمندگیاں اپنے سامنے ریحام دیکھے گی تو کیا ہو گا؟ وہ کہتی ہے کہ ایک کتا عمران کے پاس تھا۔ ایک میں ساتھ لے کے آ گئی۔ دونوں آپس میں لڑتے رہتے تھے ان کی بھی آپس میں نہ بن سکی؟ ریحام سے عمران کو کوئی خطرہ ہے۔ ریحام نہیں جانتی مگر عمران تو جانتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ‘نوائے وقت’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے