انتخابات 2020: حلقہ 16 دیامر 2

گلگت بلتستان کا حلقہ 16ضلع دیامر اور دیامراستور ڈویژن کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جس کا اکثریتی علاقہ اس ضلع کے شہری حصے پر مشتمل ہے۔ 1994تک چلاس شہر اور گوہر آباد کے دونوں حلقوں کو ملا کر ایک حلقہ شمار کیا جاتا تھا اور یہاں سے ایک رکن منتخب ہوتا تھا جس کی تفصیلات حلقہ 15دیامر1میں گزرچکی ہیں۔

گلگت بلتستان کا یہ حلقہ اس وقت عارضی صورتحال پہ قائم ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم بننے کی صورت میں اس حلقے کی پوری صورتحال اور جغرافیہ نے تبدیل ہونا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا زیادہ تر حصہ اس حلقے میں موجود ہے۔ چلاس جرگہ جیسے متعدد قدیم روایات کا مرکز ہے۔ یہاں کا خاندانی نظام مشترکہ ہے۔ شینا زبان کے چلاسی لہجے کا مرکز بھی یہی علاقہ ہے۔ دیامر کے علاقوں میں تقریباً 200سے 250سالوں کا عرصہ ہوا ہے کہ اسلام متعارف ہوا ہے، یہاں اسلام پھیلانے میں سادات کاغان کو سرفہرست شمار کیا جاتا ہے۔ چلاس کا علاقہ شہریوں کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ جہاں ایک بڑی آبادی خود کو مالکان تصور کرتے ہوئے دوسری آبادی سے امتیازی سلوک برتنے کا موقف رکھتی ہے تو وہی پر دوسری آبادی بھی صدیوں کی تاریخ اپنے پاس رکھتی ہے اور تفریق ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس حلقے کی سیاسی صورتحال پر یہی عنصر زیادہ غالب نظر آتا ہے۔

گلگت بلتستان 16دیامر 2سے حاجی جانباز خان مرحوم کو سب سے زیادہ 6مرتبہ نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ حاجی جانباز خان رواں سال حکومتی مدت مکمل ہونے سے محض ایک ہفتہ قبل یعنی 18جون کو کرونا وائرس کا شکار ہوگئے اور دارفانی سے کوچ کرگئے تھے۔

1994میں الگ حلقہ بننے کے بعد پہلی مرتبہ یہاں انتخابات ہوئے تو حاجی جانباز جیت گئے۔ بعد میں 1999، 2009 اور 2015 کے انتخابات میں بھی حاجی جانباز جیت گئے۔ جبکہ 2004میں حاجی عبدالقدوس مرحوم حاجی جانباز کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

2009کے انتخابات میں اس حلقے سے 36751ووٹر رجسٹرڈ ہوئے جن میں 11583خواتین اور 25168مرد ووٹر رجسٹرڈ تھے۔ خواتین اور مردوں کے ووٹ کے تناسب کا سب سے زیادہ فرق اسی حلقے میں رہا ہے۔ انتخابی میدان میں 13امیدواروں نے کمر کس لیا تاہم 7امیدواروں نے صرف خانہ پری کی جن میں سے 6 آزاد امیدوار تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے حاجی جانباز خان، پیپلزپارٹی نے محمد میرا جان، مسلم لیگ ق نے حاجی عبدالقدوس جبکہ حاجی عبدالعزیز، محمد پرویز اور عطاء اللہ آزاد حیثیت میں میدان میں اتر گئے۔ انتخابات میں عطاء اللہ نے 1064، محمد پرویز نے 1315، حاجی عبدالقدوس نے 1375، محمد میراجان نے 1687 ووٹ حاصل کئے۔ آزاد امیدوار حاجی عبدالعزیز نے 1756 ووٹ لئے اور مسلم لیگ ن کے حاجی جانباز خان نے 2491 ووٹ حاصل کئے اور مرد میدان ٹھہر گئے۔ 2009 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو صرف 2نشستیں ملی تھیں جن میں ایک حاجی جانباز صاحب مرحوم کی تھی جو بعد میں قائد حزب اختلاف بن گئے۔ انتخابات میں کل 9864ووٹ پڑے جو کہ مجموعی ووٹ کا 27فیصد کے قریب بنتا تھا۔

2015کے انتخابات میں کل 27937 ووٹر رجسٹرڈ ہوئے جن میں خواتین ووٹروں کی تعداد 12498اور مرد ووٹروں کی تعداد 15439تھی۔ انتخابی میدان میں ایک مرتبہ پھر 13امیدوار میدان میں اترے۔ جن میں سے 8امیدواروں نے دستبرداری حاصل کرلی اور پانچ امیدواروں میں مقابلہ سج گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے حاجی جانباز، پیپلزپارٹی نے دلبرخان، اور پاکستان تحریک انصاف نے عتیق اللہ کو ٹکٹ جاری کیا جبکہ عطاء اللہ اور حاجی عبدالعزیز آزاد حیثیت میں انتخابات لڑے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عتیق اللہ نے 1558ووٹ حاصل کئے، پیپلزپارٹی کے دلبر خان نے 2031ووٹ حاصل کئے، آزاد امیدوار عطاء اللہ نے 3068ووٹ حاصل کئے۔ مقابلہ حسب سابق آزاد امیدوار حاجی عبدالعزیز اور حاجی جانباز خان کے درمیان ٹھہر گیا۔ آزاد امیدوار حاجی عبدالعزیز نے 3162ووٹ اور مسلم لیگ ن کے حاجی جانباز خان نے 3622ووٹ حاصل کئے۔ 2015کے انتخابات میں یہ حلقہ سب سے زیادہ امن وامان والی صورتحال سے گزرگیا اور اپوزیشن جماعتوں نے الزامات کی بوچھاڑ بھی کردی تاہم کوئی فرق نہیں پڑا۔ حاجی جانباز خان انتخابات کے بعد حفیظ حکومت میں وزیر زراعت، وزیر خوراک و دیگر عہدوں پر فائز رہے۔ حاجی جانباز خان پانچ سالہ دور حکومت میں حفیظ کے قریبی وزراء میں شامل نہیں ہوسکے اور اکثریتی معاملات میں اختلافات کی خبریں گونجتی رہی۔ انتخابات میں 13441ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 48.11 فیصد رہا۔

آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے 35405ووٹر رجسٹرڈ ہیں جن میں خواتین ووٹروں کی تعداد 15660اور مرد ووٹروں کی تعداد 19744ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس حلقے سے ایک مرد ووٹر بطور احمدی اقلیت بھی رجسٹرڈ ہوا ہے۔حلقے میں کل 41پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں مردوں کے لئے 15اور خواتین کے لئے 15الگ الگ ہیں۔ 11پولنگ سٹیشن مخلوط ہیں۔ مجموعی طور پر اس حلقے سے 76 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔

رواں ماہ کے 15تاریخ کو منعقد ہونے و الے انتخابات اس لحاظ سے بھی اس حلقے کے لئے منفرد ہیں کہ اس حلقے سے نمائندگی کرنے والا کوئی بھی سابق رکن زندہ نہیں ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس حلقے میں نئی قیادت سامنے آرہی ہے۔ انتخابات کے لئے کل 7امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور انتخابی نشان حاصل کیا ہے جن میں عطاء اللہ اور محمد میرا جان آزاد حیثیت سے لڑرہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے حاجی جانباز خان مرحوم کے جانشین انجینئر انور، پیپلزپارٹی نے دلبر خان، تحریک انصاف نے عتیق اللہ، جمعیت علماء اسلام نے سیف اللہ، اور مسلم لیگ ق نے حاجی عبدالعزیز کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

اگر اس حلقے میں سابقہ ریکارڈ کو مدنظر رکھا جائے تو حاجی عبدالعزیز سب سے قدآور شخصیت ہیں کیونکہ مسلسل 2انتخابات میں وہ دوسرے نمبر پررہے ہیں اور معقول ووٹ بنک کے مالک ہیں، جبکہ مسلم لیگ ق بھی اچانک سرگرم ہوگئی ہے اور یہ مسلم لیگ ق کے لئے سب سے اہم قلعہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عتیق اللہ کا شمار ان چند پارٹی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو 2015سے قبل بھی اسی پارٹی کے وفادار رہے ہیں تاہم ان کا ووٹ بنک ماضی میں زیادہ حوصلہ افزاء نہیں رہا ہے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے کوئی غیر معمولی حرکت یا اثر حلقے کو ان کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔ انجینئر محمد انور پہلی بار میدان میں اترے ہیں جوکہ حاجی جانباز خان اور اس کے چیف پلانر سید افضل مرحوم کی عدم موجود گی سے دوچار ہیں۔ آزاد امیدوار عطاء اللہ بھی حلقے میں اثر رسوخ رکھتے ہیں اور ماضی میں خاصا ووٹ بنک سمیٹا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دلبر خان بھی گزشتہ انتخابات میں جان لڑائے اور شدید زیر عتاب رہے۔ اس حلقے سے جو بھی امیدوار جیتے گا اسے پہلی مرتبہ نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے