عزیز میاں قوال کومداحوں سے بچھڑے 15 برس بیت گئے

عزیز میاں قوال کومداحوں سے بچھڑے 15 سال ہوگئے ہیں ، انہوں نے 6 دسمبر 2000 کو طویل علالت کے بعد58 برس کی عمر میں ایران کے دارالحکومت تہران میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے انتقال سے موسیقی کا ایک اہم ترین باب بند ہوگیا۔

متحدہ ہندوستان کے شہر بلند شیر میں 17 اپریل 1942 کو پیدا ہونے والے عزیز میاں میرٹھی نے قوالی کی تربیت استاد عبدالواحد خان سے حاصل کی جس کے بعد لاہور میں داتا گنج بخش سکول سے عصری تعلیم حاصل کی۔وہ ”ٹرپل ایم اے“ تھے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردوادب، عربی ادب اور فارسی ادب میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔

عزیز میاں روایتی قوالی اور غزلوں کو قوالی کے انداز میں گانے کے انداز میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ان کا شمار بر صغیر پاک و ہند کے صف اول کے قوالوں میں ہوتا ہے ۔”حشر کے روز یہ پوچھوں گا“ ان کی ایک ایسی قوالی ہے جو دنیا کی طویل ترین قوالی کا اعزاز رکھتی ہے جس کا دورانیہ 115 منٹ ہے۔ ان کی اعلیٰ خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔

عزیزمیاں کو اپنی قوالیاں خود لکھنے کا منفرد اعزاز حاصل تھا جبکہ ان کے ہم عصر دیگر قوال دوسرے شاعروں کی لکھی ہوئی قوالیاں گاتے تھے۔اپنی شاعری کے علاوہ انہوں نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے کلاموں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا اس کے علاوہ انہوں نے قتیل شیفائی کے کلاموں کو بھی گا کر امر کردیا۔

انہیں اصل شہرت 1966 میں اس وقت ملی جب انہوں نے ایران میں محمدرضا پہلوی کے سامنے گایا اور شاہ ایران سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔شروع کے ایام میں انہیں ” فوجی قوال“ کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ ان کی اکثر پرفارمنسز فوجی جوانوں کے سامنے بیرکوں میں ہوتی تھیں۔

ان کی قوالیوں میں مذہب کا رنگ زیادہ جھلکتا تھا اور وہ محبوب کی زلفوں کے کم ہی اسیر رہے ہیں ۔ تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے، میں شرابی، اللہ ہی جانے کون بشر ہے،اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ گا کردنیا سے رخصت ہونے والے عزیزمیاں قوال مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے