” ظلم کی تصویر "

ایک واقعہ سنئے اور اپنا سر شرم سے جھکا لیجئے اور افسوس کرتے جائیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ یہ جو واقعہ میں بتانے جا رہی ہوں یہ ڈھائی سو سال پرانا نہیں گزشتہ چند روز کا ہے۔ اس واقعے کی روداد سنانے والی ایک ماں تھی۔دس نومبر کی صبح کشمور کے تھانے میں ایک خاتون آئی اور کہا کہ میری بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے، خاتون بتاتی ہیں کہ وہ کراچی کے ایک سرکاری ہسپتال میں رہتی تھیں، اس کو نوکری کے لیے فون آیا اور کہا کہ تمہیں چالیس ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی ۔وہ خاتون کراچی سے کشمور جاتی ہے ۔اس کو کہا کہ ہم تمہیں وہاں لے جاتے ہیں جہاں تمہیں نوکری کرنی ہے ۔ پھر اس کو ایک ویران علاقے میں لے جاکر ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔پولیس کی رپورٹ کے مطابق تین دن تک اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جاتی رہی ۔72 گھنٹے افسوس بچی کے سامنے ۔یہ ظلم و ستم یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ یہاں سے شروع ہوا اس کو کہا کہ اب یہ بچی تمہاری ہمارے پاس ہے اب تم واپس جاؤ اور کسی اور خاتون کو لے کر آؤ تاکہ ہم اس کو اپنے ہوس کا نشانہ بنا سکیں۔خاتون دوبارہ کراچی آئی اس نے ہمت کی اور پولیس کو اطلاع دی۔

پولیس نے اس پر کروائی کی بچی کو آزاد کروا لیا گیا، بچی کو ہسپتال روانہ کیا گیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق معصوم بچی کو انتہائی وحشیانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا ۔آپ کو پچھلے واقعات تو یاد ہوں گے کہ کیا کیا جاتا رہا ، زینب قتل کیس ، پچھلے دنوں موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کی گئی اور بھی بہت سارے کیسز ہیں ۔ان میں سے کچھ واقعات رپورٹ بھی ہو جاتے ہیں اور کچھ ہوتے بھی نہیں ۔وہ اس ڈر سے خاموش رہتے ہیں کہ ہماری عزت نہ خراب ہو جائے معاشرے میں لوگ کیا کہیں گے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس واقعہ میں صرف ماں کے ساتھ ہی نہیں اس کی بچی کے ساتھ بھی، ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں متعدد بار ریپ کیا گیا۔ اس کے سر کے بال کاٹ دئیے گئے، دانت توڑ دیے گئے، ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔میں اس واقعے کو اور بیان نہیں کر سکتی ۔

میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں، ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ ریپ خواتین کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ معاشرے کی یہ سوچ ہے کہ جو خواتین فیشن ایبل کپڑے پہنتی ہیں یا دوپٹہ نہیں پہنتی ، یا رات کو باہر نکلتی ہیں، صرف ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ۔

تو ؟پھر اس سوال کا جواب بھی بتا ئیں گےکہ قبر میں ریپ کیوں کیا گیا ؟
برقعے والی خواتین کو جسمانی زیادتی کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے؟
ہم انصاف کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں انصاف اور قانون سب ایک دھوکا ہے ۔ہمارے معاشرے میں کوئی عورت بھی محفوظ نہیں، چاہے وہ سکول جانے والی بچی ہو، چاہے وہ سوشل ورکر ہو، چاہے وہ گھر بیٹھی خاتون ہو کیونکہ مرد بھوکے بھیڑیے کی مانند ہیں ۔وہ اپنی بھوک کی خاطر اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لئے ایک معصوم عورت کو اپنا نشانہ بنا لیتے ہیں ۔

جب ہم ایک ظلم پر خاموش رہتے ہیں اور ایک واردات پر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں تو دراصل ہم دس وارداتوں کے لئے راستہ ہموار کر دیتے ہیں ۔ہم نے غیرت کے نام پر قتل کو، ریپ کو، ایک نارمل بات بنا لیا ہے کہ معاشرے میں تو ایسا ہوتا ہی ہے ۔اور پھر تب ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے جب کوئی ہمارے گھر کی جانب بڑھتا ہے ۔باقی لوگ یہی سوچتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ ہوا ہے شکر ہے ہم اب تک محفوظ ہیں اور افسوس یہ کہ ہم کتنی آسانی سے بھر جاتے ہیں۔

قانون پر صحیح طریقے سے عمل درآمد کرنے سے ہی ایک ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔ہمارے ملک میں ریپ پر بنے ہوئے قانون پر عمل درآمد کرنے سے ہی ہم اس چیز سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں اور کیسے یہ کیسز کم ہوسکتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا قانون کس حد تک اس پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے