شاباش، تم کر سکتے ہو…مائی فُٹ!

زی ہمارا کالج کے زمانے کا دوست ہے، اچھا خاصا معقول آدمی ہے، پڑھائی لکھائی میں بھی ٹھیک تھا، آپ اسے اوسط سے کچھ اوپر درجے کے لوگوں میں بھی شامل کر سکتے ہیں۔ کالج کی تعلیم کے بعد اُس نے وہی کیا جو سب کرتے ہیں، نوکری کی تلاش، ایک یونیورسٹی میں لیکچرار کی اسامی نکلی تو وہاں درخواست بھجوا دی۔ انٹرویو کے لئے بلاوا آ گیا۔ اُس سے پہلے دو درجن امیدوار وہاں اِسی نوکری کے لئے موجود تھے۔ ابھی دس امیدواروں کے انٹرویو ہی مکمل ہوئے تھے کہ اچانک اُس یونیورسٹی میں کوئی ہنگامہ شروع ہو گیا، منتظمین نے باقی انٹرویو منسوخ کردیے اور امیدواروں سے کہا کہ اُنہیں اگلی تاریخ کے بارے میں آگاہ کر دیا جائے گا لیکن وہ اگلی تاریخ کبھی نہیں آئی۔

جتنے امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے تھے اُنہی میں سے ایک شخص کو بلا کر نوکری کا پروانہ تھما دیا گیا۔ زی نے اِس واقعے کو اپنی بدقسمتی پر محمول کیا اور صبر کرکے بیٹھ گیا۔ کچھ عرصے بعد زی نے ایک کاروباری فرم میں ملازمت کی درخواست جمع کروائی، اِس مرتبہ اُس کا انٹرویو خوب ہوا، یہ نوکری اُسے مل گئی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جن سیٹھ صاحب نے زی کو نوکری پر رکھا تھا چند ہفتوں بعد اچانک ہارٹ اٹیک سے اُن کا انتقال ہو گیا، اُن کے مرنے کے بعد ورثا میں جائیداد کا جھگڑا شروع ہو گیا اور کچھ ہی عرصے میں وہ فرم ہی بند ہو گئی۔ ہم سب نے اِس واقعے کا افسوس منایا مگر ساتھ ہی زی کی ہمت بھی بندھائی اور اُسے کچھ موٹی ویشنل اسپیکرز کی کتابیں لا کر دیں اور سمجھایا کہ اِن کتابوں کو پڑھ کر لوگ دنیا میں سڑک چھاپ سے ارب پتی بنے ہیں، لہٰذا، شاباش تم کر سکتے ہو!

اُس کے بعد ہم سب دوست مکروہاتِ دنیا میں کچھ ایسے الجھے کہ آپس میں رابطہ اور ملنا جلنا کم ہو گیا، کبھی کسی دوست کی خبر مل جاتی کہ وہ باہر منتقل ہو گیا ہے اور کسی کی نئی تعیناتی کی خبر سُن کر خوش ہو جاتے۔ زی کی اِس دوران کوئی اچھی بری خبر نہیں ملی۔ ایک دن کچھ مشترکہ دوستوں کی محفل میں زی سے ملاقات ہو گئی۔ اُس کی خوش مزاجی تو قائم تھی مگر بدقسمتی نے اب بھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ زی نے لہک لہک کر بتایا کہ اُس کی شادی جس لڑکی سے ہوئی تھی وہ بھی ناکام ہو گئی اور اب زی کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ زمین نامی سیارے پر اُس سے زیادہ بدقسمت آدمی کوئی نہیں، وہ ایسا شخص ہے جو کسی چلتے کام میں بھی ہاتھ ڈالے گا تو وہ کام بند ہو جائے گا، اگر اسے ٹیسلا کمپنی کا سی ای او بھی لگا دیا جائے تو ٹیسلا کا بھاؤ اگلے روز گر جائے گا اور چونتیس ارب ڈالر کی یہ کمپنی بند ہو جائے گی۔ اپنی ترنگ میں زی نے یہ مثال بھی سنائی کہ اگر آسمان سے من و سلویٰ کی بارش ہو جائے اور پوری دنیا اُس سے فیض یاب ہو تو وہ دنیا کا واحد شخص ہوگا جس تک یہ من و سلویٰ نہیں پہنچے گا، اِس کے برعکس اگر آسمان سے کوئی اسکائی لیب گرے گا تو اُس کا ایک حصہ سیدھا شرقپور شریف میں واقع اُس کے مکان کی چھت پر اُس وقت گرے گا جب وہ رات کو سونے کے لئے چارپائی پر لیٹا ہوگا جبکہ باقی اسکائی لیب بحر الکاہل میں جا گرے گا۔

اُس رات ہم سب دوستوں نے مل کر زی کی زندگی کا تجزیہ کیا اور اپنی اپنی رائے دی۔ کسی نے کہا کہ زی مسلسل محنت نہیں کرتا جبکہ کامیابی پیہم جدو جہد مانگتی ہے، کسی کا خیال تھا کہ زی میں مستقل مزاجی نہیں اور یہ بہت جلد ہر کام سے اکتا جاتا ہے، کسی نے یہ نکتہ نکالا کہ زی نظم و ضبط کا پابند نہیں اور وہ کسی پلان اور منصوبے کے بغیر زندگی گزارتا ہے لہٰذا اب تک ناکام ہے لیکن جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ ہمارے تمام تجزیے غلط ہیں۔ ہم نے زی کے ساتھ اپنی قابلیت، محنت اور ڈسپلن کا تقابل کیا تو پتا چلا کہ ہم میں سے بھی کوئی قائداعظم یا لنکن نہیں، ہم بھی بس معمول کی محنت کرتے ہیں، عام انسانوں کی طرح زندگی کے معاملات سے اکتا بھی جاتے ہیں، نظم و ضبط کے بھی اتنے ہی پابند ہیں جتنا کوئی ہمیں پابند کر سکتا ہے اور رہی بات صلاحیت اور قابلیت کی تو ہم میں اور زی میں زیادہ فرق نہیں۔ بالآخر طے یہ پایا کہ زی کا مقدر ہی خراب ہے اور اِس خرابی مقدر کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا لہٰذا زی کو اُس وقت تک صبر کرنا پڑے گا جب تک خوش بختی اُس کا در نہیں کھٹکھٹاتی۔

ہم نے یہ بات تو کہہ دی مگر اندر سے دل مطمئن نہیں ہوا۔ خوش قسمتی کب دروازہ کھٹکھٹائے گی، بدقسمتی کب جان چھوڑے گی؟ اِس موقع پرہم میں سے نسبتاً سیانے دوست نے ایک لطیف نکتہ سمجھایا۔ اُس مردِ عاقل نے کہا کہ مقدر کا کھیل اپنی جگہ برحق ہے، زندگی میں ایکس فیکٹر بھی ہوتا ہے جسے ہم نامعلوم کہتے ہیں اور اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض معاملات پر آپ کا اختیار نہیں ہوتا مگر اِن تمام باتوں کے باوجود کسی شخص کی مسلسل ناکامی کے پیچھے، جسے آج ہم بدقسمتی کہہ رہے ہیں، کچھ غلط فیصلوں کا سلسلہ ہوتا ہے جو اُس شخص نے زندگی میں کئے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی ایک فیصلے کی وجہ سے کامیاب یا ناکام نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں لئے گئے فیصلوں کی پوری لڑی کسی شخص کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہے۔ آج اگر کوئی شخص کامیاب ہے اور وہ کوئی اکا دکا غلط فیصلے بھی کر لے تو ناکام نہیں ہو جائے گا، بالکل اسی طرح آج اگر کوئی ناکام ہے تو محض ایک آدھ درست فیصلہ کرنے سے فوراً کامیابی نہیں ملے گی۔

محفل برخواست ہو گئی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ زی کا مسئلہ مگر حل نہیں ہوا۔ اُسے بدقسمتی کی دلدل سے کیسے نکالا جائے؟ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے جو اپنی جگہ ویسے ہی قائم ہے۔ وہ زندگی میں ایسے کون سے فیصلے کرے جو اسے بدقسمت سے خوش قسمت یا ناکام سے کامیاب بنا دے؟ اِس کا بیان پھر کبھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے