جس کا پڑوسی ظلم و ستم سے محفوظ نہیں

تخریب کاری بہت آسان شے ہے مگر اس کے مقابلے میں امن کے لئے کردار ادا کرنا مشکل کام ہے پھر امن کے لئے حقیقی طور پر کردار ادا کرنا اور قربانی دینا سب سے مشکل کام ہے ۔ اس فریضے کی ادائیگی میں چہروں کو بدلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں پھر جب حالت ایسی ہو کہ اکثریت ایک طرف ہو اور آپ ایک الگ موقف پر ڈٹے ہوں تو پھر شاید اس سے آگے کا راستہ کچھ بھی نہیں ہوگا جب تک کہ آپ کو کامیابی نہ ملے اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ آپ عالم انسانیت کے فلاح اور امن جیسے موضوع کے لئے کھڑے ہوں اور آپ کو کامیابی نہ ملے۔ تاریخ کے گمنام اوراق سے ایسے سینکڑوں کردار سرنکالتے ہوئے نظر آئیں گے جو وقت کی رفتار کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور معاشرتی برائیوں کی تیغ کے سامنے خود کو پیش کرلیا۔

جنوری کا مہینہ گلگت کے لئے سیاہ مہینہ ہے ۔ 2005 کے اس ابتدائی مہینے میں گلگت کے معروف عالم دین آغا ضیاءالدین کو گھر سے مسجد جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد یہ شہر یکسر بدل گیا۔ اس موضوع کے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر اس دوروانیے میں درجنوں کی تعداد میں ایسے کردار ملیں گے جنہوں نے گھپ اندھیرے میں روشنی کی نوید سناکر نہ صرف امن کا پرچم ہاتھ میں تھامے رکھابلکہ اس پرچم کو بلند کرنے کے لئے حقیقی معنوں میں کردار بھی ادا کیا۔ ایسے ہی بے شمار کرداروں میں سے ایک کردار غلام سرور ہے ۔ باریش غلام سرور چیف سیکریٹری کے دفتر کے ساتھ اپنی چائے کی کینٹین چلاتے ہیں۔جب شہر میں آگ لگ گئی اور مواصلات کا نظام صفر تھا تو اکثر لوگوں کو اس بارے علم نہیں تھا کہ یہ شہر کیوں گونج رہا ہے۔ اس دوران کانوں کان خبریں پہنچنا شروع ہوگئی تو گلگت سیکریٹریٹ کے ملازمین اور آفیسران بھی چوکنا ہوگئے تاہم کوئی محفوظ مقام نہ ہونے کے برابر تھا۔ غلام سرور کے مطابق وہ گھر میں تھے کہ مختلف آفیسران بلاتفریق مذہب میرے گھر میں داخل ہوگئے اور کہا کہ اس وقت آپ کے علاوہ ہمارا کوئی نہیں ہے۔ غلام سرور کے سامنے اس وقت معصوم افراد تھے جو معمولی سی غلطی کی صورت میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھ سکتے تھے ، غلام سرور کے گھر میں داخل ہونے والے اس وفد میں اتفاقاً تینوں مسالک کے لوگ تھے۔ غلام سرور نے ان پناہ گزینوں کو اپنا مہمان قرار دیا اور انہیں گھر میں مقیم رکھا۔ جس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی تھی اس میں یہ بات خارج از امکان نہیں کہ غلام سرور نے اپنی جان پر کھیل کر ان افراد کو اپنے مہمان خانے تک پہنچادیا ہے۔

3اپریل 2012 بھی اس حوالے سے نہایت اہمیت کا دن بن گیا جب گلگت اتحاد چوک میں ایک مذہبی جلسے میں دستی بم سے حملہ کردیا گیا۔ اس واقعہ میں افواہوں اور غلط خبروں نے وہ کردار ادا کیا کہ جس کی قیمت متعدد بے گناہ جانوں کی صورت میں چکانی پڑی ۔ گلگت اتحاد چوک میں دستی بم حملے کی خبر چلاس اور کوہستان تک پہنچتے پہنچتے ایٹم بم بن گئی جس میں مذہبی شخصیات کو ہدف بنانے کی اطلاع بھی شامل تھی ۔ ان افواہوں اور غلط خبروں کا خوفناک رد عمل سامنے آگیا اور شاہراہ قراقرم میں مسافرگاڑیوں کو روک کر شناخت کرنا شروع کردیا۔ مسافروں کی اکثریت ایسی تھی جو ناکے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور گونر فارم کے قریب محفوظ الحق نامی تاجر کے گھر پہنچ گئے۔ محفوظ الحق اور اس کے اہلخانہ شورشرابہ سن کر باہر پہنچ گئے جہاں مسافروں کی فریاد نے انہیں گھیر لیا۔ محفوظ الحق اور اہلخانہ نے اپنے گھر کا مرکزی گیٹ کھول دیا جس پر مسافر دیوانہ وار داخل ہوگئے ، گھر میں خواتین کو الگ اور مردوں کے لئے الگ الگ کمروں میں منتقل کردیا گیا۔ تھوڑی دیر میں مشتعل ہجوم بھی محفوظ الحق کے گھر کے باہر پہنچ گئی اور تقاضا کردیا کہ مسافروں کو گھر سے باہر نکال کر ہمارے حوالے کریں۔محفوظ الحق اور اس کے بھائی دروازے پر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ پہلے ہمیں مار کر ہمارے مہمانوں کے پاس جانا ہوگا۔

ہر دلخراش واقعہ میں ایسے کردار نظر آئیںگے جن کا خیال ہے کہ معاشرے فسادات سے آگے نہیں بڑھتے ہیں ۔ ایسے کردار نظر آئیں گے جو اپنا بنیادی مقصد نہیں بھولتے ہیں۔ ایسے کردار نظر آئیںگے جو کردار کے غازی ہیں اور کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ اپنا وجود رکھتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اسلام دیگر مذاہب یا ادیان سے مختلف اور منفرد ہی اسلئے ہے کہ یہ نفاذ امن کی بنیاد پر قائم ہے۔ جن کو یہ پیغام حقیقی معنوں میں سمجھادیا گیا ہے کہ ظلم و جبر ، تشدد اور فسادات سے معاشرے آگے نہیں بڑھتے ہیں بلکہ بدامنی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ بدامنی کی صورت میں معاشرے تقسیم ہوجاتے ہیں اور اس تقسیم میں انسان وحشیانہ زندگی گزارنے کی طرف ہی بڑھ جاتا ہے۔

گلگت کے غلام سرور خان اور چلاس کے محفوظ الحق سمیت درجنوں بلکہ سینکڑوں کردار معاشرے میں ہمیں نظر آئیںگے جو حقیقی معنوں میں سمجھتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک بے گناہ انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا فرد خود کو کردار سروری اور محفوظ الحق جیسوں کے رنگ میں ڈھالے اور ایسے کرداروں، افکار کی مذمت کرے جو خیر کے مقابلے میں شر تلاش کرتا ہے ،بالخصوص ایسے لوگ جو مذہب کا سہارا لیکر دوسروں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایابہ خدا وہ مومن نہیں ، بہ خدا وہ مومن نہیں ، بہ خدا وہ مومن نہیں۔ دریافت کیا گیا کہ کون یا رسول اللہ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ ہو۔

پاکستان میں فسادات کے پس منظر میں ایک اہم بات جو سامنے آگئی ہے وہ غیر محفوظ عطیات ہیں، جسے ہم اپنی بے خبری میں ایسے عناصر کے حوالے کرتے ہیں جو ہماری رقم کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر صدقات اور عطیات سب سے زیادہ دئے جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سالانہ ساڑھے پانچ سو ارب سے زائد رقم بطور خیرات دی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے اکثریت کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ رقم کہاں پر خرچ کی جاتی ہے ۔ ہماری رقم محفوظ ہاتھوں میں بھی جاتی ہے یا نہیں ہے جس کے بعد حکومت نے محفوظ عطیات کی ایک مہم بھی شروع کی تھی جس کا مقصد مخیر حضرات کی توجہ اس جانب مبذول کرانا تھا کہ عطیات اور خیرات دیں مگر دیکھ بھال کر۔ کیونکہ آپ کے عطیہ سے عبدالستار ایدھی جیسے افراد کو حقیقی معنوں میں خدمت کا موقع بھی ملتا ہے اور شدت پسند عناصر کے ہاتھوں پہنچ کر آفت کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ خیرات سے خدمت بھی ممکن ہے مگر خطرات بھی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو بہتر طریقے سے آگے بڑھانے کے لئے ہم اپنے عطیات کے دوران محفوظ ہاتھوں تک پہنچانے کی زمہ داری بھی ادا کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے