5 فروری،کشمیریوں سے یکجہتی اور چند ذاتی مشاہدات

اس روز کشمیر کی تاریخ میں ایسا کیا ہوا کہ جس کی یاد منانے اس تاریخ کا انتخاب کیا گیا؟
11فروری 1984کو کشمیر کی مکمل خود مختاری کی تحریک کے بانی کشمیری لیڈر مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔ اس دن کی یاد منانے کشمیر کے بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں کہیں کشمیری آباد ہیں 11 فروری کو مقبول بٹ کی برسی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔

1990کی بات ہے ، مظفر آباد آزاد کشمیر میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف سیز فایر لائن توڑنے کی کال دے چکی تھی۔ اور سرینگر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جے کے ایل ایف نے بڑے بڑے عوامی اجتماعات کی کال دے رکھی تھی۔ اس کے رد عمل اور لوگوں کی توجہ اس عوامی تحریک سے ہٹانے کیلئے جنوری1990میں پاکستان کی جماعت اسلامی نے ایک میٹنگ کی جس میں ڈاکٹر غلام نبی فائی شریک ہوئے اور پانچ فروری 1990کو پاکستانیوں کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کال دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔

ان دنوں مرکز میں مرحوم بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی ،ان پر الزامات لگ رہے تھے کہ وہ کشمیر کی تحریک آزادی سے ہاتھ کھینچ رہی ہیں ۔پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی، ان کے مرکز میں بے نظیر کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے ۔ موقع جان کر یا کسی کی تجویز پر نواز شریف نے قاضی حسین احمد سے ملاقات کی اور پنجاب میں سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیرکی کال دینے کی پیشکش کی اور اس کال پر اٹھنے والے تمام اخراجات کا ذمہ لے لیا ، قاضی حسین احمد صاحب مرحوم نے میاں نواز شریف کی تجویز قبول کر لی۔ اس طرح پنجاب حکومت کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے جماعت اسلامی کی 5 فروری کی کال ہائی جیک کر لی اور حکومت پنجاب کی جانب سے اس دن کو سرکاری سرپرستی میں منانے کی ابتدا ہوئی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب شیخ رشید صاحب نواز شریف صاحب کو فتح جھنگ میں اس مہمان خانہ میں لائے جو انہوں نے ہمارے مہمانوں کے لئے وقف کیا تھا ۔شیخ صاحب اور میں راولپنڈی پولی ٹیکنک کالج میں ایک ساتھ پڑھے اور دوستی تھی ، جب حکومت پاکستان کے ساتھ ہمارے اختلافات بڑھے اور جے کے ایل ایف کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا گیا تو میں اور شیخ صاحب کے حلقہ کے ایک بااثر کشمیری دوست غلام احمد بٹ صاحب مرحوم شیخ صاحب سے لال حویلی میں ملے۔ انہوں نے ہماری کہانی سنی اور مدد کا وعدہ کیا۔

قصہ مختصر انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور فتح جھنگ میں اپنی جگہ ہمارے مہمانوں کے لئے مختص کی ، پھر جو کچھ ہوا وہ میڈیا کی زینت بنا ۔ نواز شریف صاحب نے بہ حیثیت چیف منسٹر پنجاب اس جگہ بغیر پروٹوکول آنے کا عندیہ دیا تو شیخ صاحب نے مجھے اور غلام احمد بٹ صاحب سے کہا کہ ہم فتح جھنگ پہلے سے پہنچ جائیں اور وہاں کشمیری ناشتہ کا بندوبست رکھیں مگر کسی کو خبر نہ ہو کہ میاں صاحب آ رہے ہیں ۔میاں صاحب نے کشمیری مہمانوں سے کشمیریت اور کشمیر سے محبت کا کھلا اظہار کیا ۔
اور آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب نواز شریف کی بطور وزیر اعظم حکومت ختم ہوئی اور ایک دن انہیں میرا خیال ہے تنویرالاسلام لے کر پنڈی حریت کے دفتر میں آئے اور میاں صاحب نے اپنے ذاتی اکاونٹ سے شاید 50 لاکھ کا چیک دیا ۔آپ اس کی بابت یوسف نسیم یا تنویر الاسلام سے میرا حوالہ دے کر درست معلومات حاصل کرسکتے ہیں ) آج نواز شریف سے ان 50 لاکھ کا بھی تو حساب لینا چاہیے ناں کہ وہ اس نے کہاںسے لائے ؟ افسوس ہوتا ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ پر ۔شیخ رشید بھی کچھ نہیں کرسکتا ،اگر اسے نواز شریف کی حمایت نہ ہوتی ۔تب سے آج دن تک یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔

بہرکیف عام پاکستانیوں کی جانب سے اظہار یکجہتی پر ہم کشمیری ان کے شکر گزار ہیں مگر ان کی حکومتوں کے کشمیر کےمعاملے پر بد نیتی پر مبنی کسی عمل کا حصہ نہیں بن سکتے۔پانچ فروری کا جموں کشمیر کی تاریخ اور تحریک دونوں سے سرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔ جو لوگ کسی قسم کے کلینڈر سے تعلق جوڑ رہے ہیں وہ کشمیری عوام کے جذبات احساسات کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ میری سوچ اور نظریات سے اختلاف کرنے کا آپ کو حق ہے مگر میں چشم دید گواہ کے طور حقائق بتانا ضروری سمجھتا ہوں.

1988-90کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چند اہم واقعات ،جن میں بھارتی وزیر داخلہ کی بیٹی ربیعہ سعید محبوبہ مفتی کی بہن کے ( جن کے بارے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جے کے ایل ایف والوں کے ساتھ خفیہ طور مل چکی تھی اور بھارتی حکومت نے اسے اغوا کا نام دے دیا ) کا واقعہ شامل ہے جس کے نتیجے میں گرفتار شدہ حریت پسند رہنماؤں کی رہائی عمل میں آئی۔ اس کے نتیجہ میں جو عوامی بیداری کی لہر پیدا ہوئی سیاسی سطح پر شہید مقبول بٹ کے سیاسی نظریہ اور ان کے پیرو کاروں خصوصی طور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو زبردست عوامی حمایت ملتا دیکھ کر کشمیر کی خود مختاری کے نظریے کی مخالف تمام قوتیں پریشان ہو گئیں ۔ مقامی وغیر مقامی قوتیں اضطراب کا شکار ہو گئیں ۔ سچ یہ ہے کہ دلی، اسلام آباد ، سرینگر و مظفر آباد میں موجود کشمیریوں کی مکمل آزادی کی مخالف قوتیں وادی کشمیر میں عوامی مزاج میں اتنی بڑی تبدیلی دیکھ کر بڑی حد تک پریشان ہوئے اور مظفر آباد اور اسلام آباد میں بعض حلقوں اور رہنماؤں نے اس کا اظہار ذاتی طور مجھ سے کیا بھی۔
جوں فکر مقبول کے سب مخالف کچھ حیران اور کچھ پریشان ہو گئے ۔ چاروں مقامات یعنی دہلی، اسلام آباد ، سرینگر اور مظفر آباد میں کشمیر کے معاملات کے نگران اداروں نے سرکاری طور وہ تمام حربے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جن سے اس نئی تحریک کے نئے انداز سے پھیلتے اثرات کو کنٹرول کرنے اور نئے افکار کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ لمبی تفصیل ہے جسے کسی اور موقع پر قلمبند کروں گا ۔ دو دو نفری گروپ اور تنظیموں کی بھر مار کر دی گی تا کہ وہ آپس میں لڑیں تا کہ ایک آزاد جمہوریہ کشمیر کے قیام کے لئے عوامی بیداری اور سیاسی عمل کی آبیاری کو بندوق کی طاقت سے کنٹرول کر کے کمزور اور پھر ختم کیاجا سکے۔

یہ وہ دور تھا جب شہید مقبول بٹ کی سوچ سے مطابقت رکھنے والوں کو خواہ وہ کسی بھی سیاسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے، چن چن کر مارا گیا۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے یاسین ملک، سمیت تقریباً” ساری مرکزی قیادت کو گرفتار کر ا لیا اور ان کے ساتھی دانشوروں کو مارنے والی قوتوں کی پس پردہ حوصلہ افزائی بھی کی تا کہ جے کے ایل ایف سیاسی قیادت اور بہترین مفکروں کی رہنمائی سے ہی محروم رہے۔

یاد رکھیں کسی بھی جنگ میں شکست کے اسباب تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ جاننا اور تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ جنگ آخر ہوئی کیوں؟ گذشتہ 73 سال میں کشمیر پر بھارت و پاکستان کے درمیان لڑی جانے والی چھوٹی بڑی سب جنگیں ایک طرح سے دونوں نے ہار ی ہیں ۔ کوئی بھی ملک پورے جموں کشمیر کو اپنے قبضہ میں نہیں لے سکا فقط جو علاقہ ، لوگ اور وسائل ان کے ہاتھ لگے، یہ دونوں ممالک اسے ہی ہاتھ سے نکلنے سے بچانے میں لگے ہیں ۔انہیں ایک آزاد ،خود مختار کشمیری مملکت کے دوبارہ وجود میں آنے سے ڈر اور خوف آتا ہے.

میرا مشورہ ہے پاکستان اور بھارت کو اب حقائق کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے۔ایک دوسرے کے خلاف خفیہ کارروائیاں ،پراکسی وار کا سلسلہ بھی ختم کر دینا چاہیے ۔ پاکستان اور بھارت کے کروڑوں عوام زبردست معاشی مسائل کا شکار ہیں ۔تمام وسائل ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی بنیاد پر کھڑے کیے گے دفاعی حصار بنانے اور ہتھیاروں کی تیاری خریداری کی دوڑ پر صرف ہو رہے ہیں ۔ نفرت کی اس جنگ میں کبھی کشمیری استعمال ہوتے ہیں ، کبھی بنگالی، کبھی سکھ، کبھی بلوچ کبھی مذہبی جنون و جذبات کو ابھار کر اس نفرت کو قائم رکھا جاتا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ غلط تصورات پر مبنی پالیسیاں تبدیل کی جائیں، امن کی آشا کا دیپ ہر کوئی جلائے اور حقیقی امن انصاف کیلئےجدوجہد کرے اور ایسا کرنے کے لیے جموں کشمیر سےمکمل فوجی انخلا کے معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے دوبارہ مذاکرات شروع کریں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے