محمد علی سدپارہ، میری کہانی میری زبانی

دیوسائی کو دنیا کی چھت کہا جاتا ہے، یہ سطح سمندر سے 4114 میٹر بلند ہے۔843 مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے اور دنیا کی دوسرا سب سے بلند سطح مرتفع کی حیثیت حاصل ہے۔ استور اور سکردو کے بیچ میں پھیلا ہوایہ نیشنل پارک جنگلی حیات کا قدرتی مسکن ہے جس میں سینکڑوں نایاب جانور اور پرندے بستے ہیں۔ اگر آپ استور چلم کے داخلی دروازے سے اس میں داخل ہوتے ہیں اور سکردو کے راستے اس پارک سے نکلتے ہیں تو آپ کا استقبال ایک جھیل کرتا ہے جسے دور سے دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ پہاڑوں کے بیچ میں ایک نگینہ رکھا گیا ہے، اس جھیل کو سدپارہ جھیل کہتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں میری پیدائش ہوئی اور اس مٹی نے مجھے پہچان دیدی۔

میرا نام محمد علی سدپارہ ہے۔میری پیدائش 2 فروری 1976کو حاجی اسد علی کے گھر میں ہوئی جو کہ ملازمت سے وابستہ تھے جس سے گھر کے معاملات کو چلاتے تھے۔ میری پیدائش کے وقت سدپارہ گاؤں اور سکردو کے علاقوں میں ایک عجیب وباء پھیلی تھی جس میں نوزائیدہ بچے ماں کی گود سے موت کا سفر باندھتے تھے۔نوزائیدہ بچوں کی اموات نے سب کو پریشان کررکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ میرے 11بہن بھائیوں میں سے صرف 3کو آنکھیں کھول کر دنیا دیکھنا نصیب ہوا جبکہ 8بہن بھائی اسی وباء کے نتیجے میں میری ماں کے گود سے ہی آخرت کا سفر باندھ گئے۔ میں اپنے والدین کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا میری پیدائش کے وقت بھی وباء کے بادل منڈلارہے تھے جس سے میری ماں خوفزدہ تھی، قدرت کا نظام بھی ایسا ہے کہ گھر میں سب سے چھوٹے بچے کو زیادہ پیار نصیب ہوتا ہے اور میری ماں نے بھی تہیہ کررکھا تھا کہ وہ مجھے ہر صورت اس وباء سے بچائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہادر ماں نے وباء سے مقابلہ کیا اور 6 سال تک مجھے اپنے گود میں رکھ کر دودھ پلایا ہے۔ یہ زندگی کی میری دوسری فتح تھی۔

آنکھیں کھول کر دنیا کا نظارہ کرنے نکلا تو پہاڑوں نے مجھے گھیرا ہوا تھا۔ بچپن سے ہی لاشعور میں یہ بات پختہ ہوگئی تھی کہ میں نے پہاڑ کے اس پار دیکھنا ہے اور پہاڑ کو سر کرنا اس کا واحد راستہ تھا۔ اور یقینا اس فن کو سمجھنے کے لئے دنیا کو ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کی چوٹی سے دیکھنا ناگزیر تھا اور جو دور سے دیکھ کے مکر گیا اس کے لئے یہ محض موت کا کھیل ہے بقول شاعر:

جو زرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے

پہاڑوں کی یہ محبت اسی روز سے میرے دل میں بس گئی تھی جس دن میں جنم لیا اور جس دن میں نے آنکھ کھولا تھا یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’کوہ پیمائی کا جنون مجھے میری ماں نے دودھ کے ساتھ پلایا ہے‘۔ لوگوں کے لئے پہاڑوں پر چڑھنا مشکل اور انہونی بات ضرور ہوگی مگر میرے لئے یہ ایک معمولی بات تھی کیونکہ میں اس غیر معمولی کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔ محض 9 سال کی عمر میں پہاڑوں کے دبدبے سے آگاہ ہوگیا جب سدپارہ جھیل پر پہاڑ سے گرے برف کے تودے اور ملبے نے جھیل کو پھٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ جس نے علاقے میں تباہی مچادی تھی۔ 19سال کی کم عمری میں علاقائی روایات کے خلاف شادی کی جس کے نتیجے میں اللہ نے مجھے ساجد جیسا تحفہ دیا جو کوہ پیمائی میں میرا ہمسفر ثابت ہوگیا۔

میں نے اپنی کوہ پیمائی کا آغاز بطور پورٹر شروع کیا اور بیرونی ممالک سے آنے والے کوہ پیماؤں کے ساتھ قراقرم رینج کے مشہور پہاڑ کے ٹو کے بیس کیمپ تک تقریباً 25 کلو سامان لیکر جاتا اور اس سے میرا گزربسر بھی ہوجاتا تھا۔ اس امدادی فعل کی بدولت میری مشق ہوگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں پہاڑوں پہ مہم جوئی کرسکتا ہوں جس کے بعد مہم جوئی کا سفر شروع کیا۔پھر یوں ہوا کہ ہر اونچا پہاڑ اور پہاڑ کی چوٹی میرے لئے دوسرا گھر بن گیا۔یوں مجھے اپنے عشق سے تعلق ہوگیا اور تعلق سے عشق ہوگیا۔

کوہ پیمائی میں معمولی سی غلطی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے اور اس میں کوئی معافی کا تصور نہیں ہے اور یہ بات میں اسی وقت جان گیا تھا جب بلتاروگلیشیئر میں، میں اپنے چشمے بھول گیا تھا جس کا مجھے خیال نہیں آیا، قریب تھا کہ سورج کی کرنوں کا انعکاس میری آنکھوں کو نقصان پہنچادیتے، میرے ایک عزیز نے مجھے چشمے عنایت کئے اور آئندہ کے لئے سبق بھی دیدیا۔ تب سے اب تک کوہ پیمائی کی کوئی ضرورت مجھ سے چھوٹی نہیں ہے۔

کارگل جنگ کے دوران جب ایک خطرناک گلیشیئر پر دو ممالک سرحد کے تحفظ کے لئے لڑرہے تھے تو پاکستان آرمی کو ایسے افراد کی شدید ضرورت تھی جو اشیاء ضروریہ کو گلیشیئر میں موجود فوجی جوانوں تک پہنچائے تب ان کی نظر بھی سدپارہ گاؤں پر رک گئی اور مجھ سمیت متعدد افراد کا چناؤ کرلیا۔میدان جنگ میں رات کا اندھیرا ہی صرف سہارا تھا جو چوٹی تک پہنچنے میں مدد کرتا۔صورتحال میں ایسا گماں ہوتا تھا کہ جیسے کسی کی شادی ہورہی ہے اور اندھا دھند فائرنگ ہورہی ہو لیکن حساسیت کا علم اس وقت ہوا جب دو پورٹرز نے لاعلمی کی بنیاد پر سگریٹ لگایا۔ اس واقعے نے مجھے سبق سکھا دیا کہ صرف دو ہی نتیجے برآمد ہوسکتے ہیں زندگی یا موت۔ یوں سنہ 2000 کے آس پاس سے پہاڑوں سے پنجہ آزمائی شروع کردی۔

پہاڑوں کی دنیا کے قصے اس قدر ہیں کہ ایک ایک لمحہ ایک ایک قصہ ہے، ہر قصے میں ایک داستان ہے اور ہر داستان ایک کتاب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر شخص مجھے سراہتا گیا بلکہ پہاڑوں کے علاوہ کوئی سراہنے والا بھی نہیں تھا مگر پہاڑوں کی ندا اس قدر جازب اور پرکشش تھی کہ میں کبھی انکار نہیں کرسکا ہوں۔ وہ لمحے بھی آگئے کہ منزل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن چھو نہیں سکے، ایسے لمحوں اور حالات سے گزرا کہ جن کو یاد کرتے ہوئے آج بھی کپکپی تاری ہوتی ہے۔ ترک محبت کے ارادے بھی کئی بار سر پر بادلوں کی طرح منڈلائے مگر کوہ پیماؤں کی دنیا نے حصار سے باہر نکلنے نہیں دیا۔

8 ہزار میٹر سے زائد بلندی کے 14پہاڑوں کو سر کرنے کا جنون شروع ہوا اور اس کا آغاز 2006 میں گشہ بروم IIسے کیا۔2008 اور 2009 میں مسلسل نانگاپربت جیسے خطرناک پہاڑ کو سرکرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔مجھے پاکستان کے پہلے کوہ پیماہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے موسم سرما میں قاتل پہاڑ نانگا پربت سر کیا ہے۔ 2015 میں پہلی مرتبہ موسم سرما میں قاتل پہاڑ نانگا پربت کو سرکرنے نکلے تاہم کامیابی نہیں ملی مگر 2016 میں دوبارہ اس ٹیم کا حصہ بن گئے جسے موسم سرما میں نانگا پربت کو سرکرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جہاں ٹیم کا لیڈر بعد میں اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا کہ محمد علی سدپارہ کے عزم و ہمت کے بغیر ہم یہ کارنامہ سرانجام دینے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔اور یہ کارنامہ بھی فروری میں سرانجام دیا۔

ایک ہی سال میں 8ہزار میٹر سے زائد پہاڑوں کو سرکرنے کا منفرد اعزاز جبکہ مجموعی طور پر 8 ایسے پہاڑ سر کئے جن کی لمبائی 8ہزار میٹر سے زائد رہی ہے۔ 2012تک براڈ پیک بھی میرے قدموں تلے آچکا تھا جس پر میں سجدہ ریز ہوگیا۔ نانگا پربت کے پہاڑ پر غلط راستے کے زریعے 78سو میٹر سفر کرکے احساس ہوا اور موت کے منہ سے واپس آگئے۔

نانگاپربت کو 4مرتبہ اپنے ہمت و حوصلے سے آشنا کردیا۔ 8 ہزار سے زائد بلندی کے پہاڑوں میں سے 2006 میں گشہ برومII، 2008 میں نناگا پربت، 2009 میں نانگا پربت، 2010 میں گشہ بروم I، 2012میں پہلی مرتبہ موسم سرما میں نانگا پربت کو سر کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ہے۔

5فروری 2021کے روز ہم پانچ بندے کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کے لئے نکل گئے۔ ہم سے ایک ماہ قبل 10نیپالی کوہ پیماؤں نے اس پہاڑ کو سر کرکے منفرد اعزاز اپنے نام کرلیا تھا جبکہ ہمارا سفر بھی ان سے پہلے شروع ہوچکا تھا مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا جس کی وجہ سے حتمی زور لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ بوٹل نیک جو کہ 82سو میٹر سے زائد بلندی پر ہے کے مقام پر آخری پر ساجد سدپارہ نے ہمیں دیکھا۔ہمارے شریک سفر ساجد سدپارہ کو ہم نے واپس کردیا تھا جبکہ ایک اور دوست واپس جاتے ہوئے رسی ٹوٹنے کے سبب جاں بحق ہوئے تھے۔پاک فوج نے ہمیں تلاش کرنے میں اپنا پورا زور لگایا ہے مگر ہم پہاڑوں میں کھو گئے ہیں۔جس جس نے نیک خواہشات ادا کئے ہیں وہ سارے بھی ہم تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں اپنے سفر پر کوئی رنج نہیں ہے۔ہم پہاڑی لوگ ہیں اب کے ٹو میں ہر اس فرد کا استقبال کریں گے جو چوٹی سر کرنے نکلے گا۔ مجھے صرف اس بات کا دکھ ہے کہ حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان نے کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ جھوٹے وعدوں کے زریعے حوصلہ شکنی کی بھی کوشش کی مگر یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکے اور ہم فروری سے اپنا ازلی رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم آج علامہ اقبال کے اس شعر کی حقیقی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے