پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ )دو ٹکڑوں میں بٹ گئی ۔

[pullquote]نئی سیاسی جماعت کا قیام [/pullquote]

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما و رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے چند دیگر رہنماؤں نے باقاعدہ طور پر سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔21 فروری کو پی ٹی ایم کے اجلاس میں محسن داوڑ سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک،سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدراور اے این پی کے سابق رہنما لطیف آفریدی ایڈوکیٹ ، بشری گوہر اور جمیلہ گیلانی شریک ہوئیں جس میں پی ٹی ایم کو سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس فیصلہ کیا گیا کہ محسن داوڑ اور افراسیاب خٹک سمیت پی ٹی ایم میں پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ اس پارٹی میں شامل ہوں گے۔پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سیاسی پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گے اور پی ٹی ایم اور نئی بننے والی سیاسی پارٹی کی راہیں جدا ہوں گی۔ ابھی تک سیاسی پارٹی کے اعلان کی تاریخ اور آئندہ کا لائحہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے تاہم جیسے ہی منشور اور آئندہ کا لائحہ عمل طے ہو گا تو جماعت کے نام اور قیام کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔نئی بننے والی سیاسی پارٹی پی ٹی ایم کی بھرپور حمایت کرے گی اور ان کے مطالبات کی بھی حمایت کی جائِے گی۔

[pullquote]پی ٹی ایم میں اختلافات کی بنیادی وجوہات [/pullquote]

پی ٹی ایم کے اندر شروع سے اس بات پر اختلاف موجود تھا کہ پی ٹی ایم کو سیاسی جماعت بنایا جائےیا اسے ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر ہی چلایا جائے ۔عوامی نیشنل پارٹی سے راہیں جدا کرنے والے یا پارٹی سے نکالے ہوئے لوگوں جن میں محسن داوڑ ، افراسیاب خٹک،لطیف آفریدی، بشری گوہر اور جمیلہ گیلانی شامل ہیں ، کا خیال تھا کہ پی ٹی ایم کو سیاسی جماعت بنایا جائے جبکہ تحریک شروع کرنے والے پی ٹی ایم کے رہ نماؤں کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم ایک مزاحمتی تحریک ہے ، اور اسے پشتون بیلٹ کی تمام مذہبی ، سیاسی اور سماجی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے ، اس لیے اگر یہ سیاسی جماعت بنتی ہے تو پھر ایک فریق بن جائے گی ، اس لیے پی ٹی ایم کو مزاحمتی تحریک کے طور پر ہی رہنا چاہیے ۔محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے کچھ رہنماؤں نے منظور پشتین کو سیاسی پارٹی بنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔ نئی سیاسی جماعت میں پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر ، ثنا اعجاز، سید عالم محسود بھی شامل نہیں ہوں گے اور بدستور پی ٹی ایم ہی میں رہیں گے۔

[pullquote]محسن داوڑ پارٹی کو ہائی جیک کر لیں گے ؟[/pullquote]

جب سے پی ٹی ایم بنی ہے محسن داوڑ سیاسی پارٹی بنانے کے حق میں تھے تاہم علی وزیر اور منظور پشتین سیاسی جماعت بنانے کی مخالفت کرتے تھے اور پی ٹی ایم کو ایک مزاحمتی تحریک بنانے پر ہی خوش تھے۔سیاسی پارٹی بنانے کی مخالفت کرنے والے پی ٹی ایم کے ایک اور رہنما کے مطابق محسن داوڑ شروع دن سے پی ٹی ایم میں ایک معروف رہنما رہے ہیں، ان کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات قائم ہیں ،منظور پشتین کو خوف تھا کہ وہ پی ٹی ایم کو ہائی جیک کرلیں گے ۔منظور پشتین پی ٹی ایم کی سربراہی کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے تھے۔ پی ٹی ایم میں سیاست کے شوقین لوگ اس سیاسی پارٹی کا حصہ ہوں گے جبکہ مںظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کے بہت سے مرکزی رہنما تحریک کو جاری رکھیں گے۔ ماضی میں منظور پشتین بارہا مختلف مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم ایک غیر پارلیمانی تحریک رہے گی اور سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے محسن داوڑ، علی وزیر، عبداللہ ننگیال جب عام انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو منظور پشتین نے واضح الفاظ میں کہا تھا اگر پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا اور پی ٹی ایم سیاست میں حصہ لینے والوں کی نہ تو حمایت کرے گی اور نہ ہی مخالفت۔ الیکشن کے چند ماہ بعد پی ٹی ایم کے لیے آئین کا ایک ڈرافٹ بنایا گیا تھا اور اس ڈرافٹ پر پی ٹی ایم کے رہنما متفق نہیں ہو سکے ۔اس ڈرافٹ میں اسی حوالے سے ایک نکتہ موجود تھا کہ کیا کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والا پی ٹی ایم کی تنظیم سازی اور فیصلہ سازی میں حصہ لے سکے گا؟ اور دوسرا اختلافی نکتہ یہ تھا کہ پی ٹی ایم پارلیمانی جدوجہد کرے گی یا غیر پارلیمانی تحریک کے طور پر قائم رہے گی۔

[pullquote]سیاسی جماعت کیوں بنانا چاہتے ہیں ؟[/pullquote]

سیاسی پارٹی بنانے کے فیصلے کے حوالے سے انڈیپنڈینٹ اردو کے صحافی اظہار اللہ نے جب محسن داوڑ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سیاسی مسائل اور اس کے حل کے لیے سیاسی لوگ اکھٹے بیٹھتے ہیں اور مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں اور آج کا اجلاس بھی اس حوالے سے تھا اور ایسی بیٹھک گذشتہ کئی عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’ہم سیاست کرتے ہیں اور اس خطے کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور جمہوری جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے