خراج تحسین ایک عظیم گمنام ہیرو : شیخ سیٹھ عابد کے نام

میں آج ایک ایسے عظیم گمنام ہیرو کی متعلق لکھنے کی جسادت کی ہے، جس کے متعلق پاکستان کی اکثریت نا وقف ہے اور اگر ہے تو ادھورے تعارف کے ساتھ۔

بسا اوقات ہم کسی کے بارے میں بار بار کچھ تبصرے سن سن کر اپنا ایمان اس پر لے آتے ہیں ۔ اس پر یقین کر لیتے ہیں، یہ انسانی وصف ہے مگر ہمیں اپنے دونوں کانوں کا استعمال کرناچاہے ، دو کان اسی لئے قدرت نے ہمیں دئیے ہیں تاکہ ہم دونوں طرف کی بات سنیں اور سمجھیں یعنی بات کے دونوں پہلو پر غور کریں، چاہے مثبت ہو یا منفی جو کہ ہمارے ہاں زرا سی ناپید ہے اور جو لوگ یہ کرتے ہیں ،وہ عموما ذہنی اور ضمیر کی خلش سے بچ جاتے ہیں،
ایسی ہی ایک ہستی ہے جو کہ اب اس دنیا میں نہیں ہے مگر اسکی پوشیدہ خدمات اسکی ظاہری خدمات سے وسیع ہیں مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ، وہاں ظاہری شکل و صورت جو کہ کسی بھی قسم کی ہو، سماجی،معاشی ، معاشرتی اس پر یقین رکھتے ہیں، مگر بہت سے ہیں ، جو نیکی اسی طرح کرتے ہیں مخفی ،جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا حکم ہے ، شیخ سیٹھ عابد ان میں سے ایک ہیں ۔ انہوں پہلے اپنے لئے بڑے منظم انداز میں کام کئے ۔

لوگوں کی معلومات کے مطابق انکا معاشرے نے جو "لوگو "مختص کیا وہ ” گولڈ کا اسمگلر” تھا۔ ایک ایسا اسمگلر جو کہ پوری دنیا سے گولڈ سمگل کر کے دنیا پر راج کر تا ہے ،اور بہت مال و دولت بینکوں میں جمع کرتا ہے۔

مگر کم لوکوں کو انکے بارے میں معلوم ہے کہ انہوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی ۔اسمگلنگ کی کہانی بھی انہوں نے خود نے سنائی، یہ انکو معاشرے نے دی ،تو کیا تھا اگر انکی زندگی میں لوگ انکی انتہائی اہمیت کی حامل جذبے حب الوطنی کے قصے بھی سناتے تو انکے لئے یہ ایک اعزازی بات ہوتی ،اور پاکستانی گورنمنٹ کو اسکا اعتراف کرنا چاہیے تھا ، کسی اعزاز کے ذریعے، مگر ثابت ہوا کہ وہ اپنی دھن کے پکے انسان تھے،ان کو یہ دنیاوی اعزازات کی پرواہ تھی ہی نہیں ۔ایسا دل کسی کسی کے پاس ہوتا، ورنہ جہاں ہم نیکی بعد میں کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر پہلے پوسٹ کر تے ہیں ۔

سیٹھ عابد دیکھنے میں ایک باریش آدمی تھے، ایک عام سے آدمی تھے، لباس اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز بہت سادہ تھا۔انہوں پاکستان کے لئے اسمگلنگ کی، جس وقت وطن کی مٹی نے اپنے اس سپوت کو آواز دی تو اس نے ایک مرد مجاہد کی طرح لبیک کہا ۔

جنرل ضیاءالحق کے دور میں جب امریکہ نے نیوکلیئر ہتھیاروں ہر پابندی لگائی ہوئی تھی اور پاکستان اس سے پہلے فرانس کے ساتھ نیوکلیئر سسٹم کا سودہ کر چکا تھا، پیسے بھی ادا ہو چکے تھے مگر اس پابندی کے بعد فرانس بھی اپنے اس معاہدے سے مکر گیا۔ پاکستان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ پروسسنگ سسٹم کیسے حاصل کرے ،اسوقت شیخ سیٹھ عابد نے جنرل صاحب کو آفر کی کہ اسے یہ کام سونپا جائے ،پاکستان کو کسی بھی قسم کا کوئی پرزہ یا سسٹم چاہیے یا جو بھی مدد چاہیے وہ حاضر ہو جائے گی، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو کیونکہ ان کا نیٹ ورک ساری دنیا میں تھااور اسکے لیے وہ بہت کام آئے،انہوں نے مختلف وقتوں اور مختلف مقامات سے وہ سب کچھ جو بھی پاکستان کو درکار تھا، لا کر دیا اور فراہم کرتے رہے۔ اور جنرل صاحب کی درخواست پر انہوں نے اسمگلنگ کا کام چھوڑ کر سماجی خدمات پر توجہ دینا شروع کر دی اور جب تک پاکستان گورنمنٹ کا یہ کام ختم ہو نہیں گیا وہ اپنی جگہ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے اور اپنی بھر پور مدد کرتے رہے۔

کہتے ہیں کہ انسان کی توبہ اللہ تبارک و تعالی قبول کر لیتے ہیں مگر لوگ معاف نہیں کرتے۔انکی زندگی میں کچھ ایسے واقعات آئے کہ انہوں نے اپنے ماضی سے توبہ کر کے اپنا سارا مال اور دھیان فلاحی کاموں پر صرف کرنا شروع کر دیا۔

اللہ تعالی نے انکو اولاد عطا کی مگر بیٹےاور بیٹیاں دونوں ہی سماعت اور قوت گویائی سے محروم تھی ۔اس چیز کا انکو بہت رنج تھا اور والدین دونوں کے لئے کے لئے یہ مشکل وقت تھا کیونکہ سب والدین اپنے لئے صحت مند بچے ہی مانگتے ہیں ،قدرت سے۔ پھر انہوں نے اللہ تبارک و تعالی سے دعا کی انکو بیٹا عطا کریں تاکہ اسے وہ حافظ بنا سکیں ،ان کی دعا قبول ہوئی اور انکو اللہ تبارک و تعالی نے بیٹا دیا جو انہوں نے حافظ قرآن بنایا جو کہ بعد میں وفات پا گیا۔اسکی وفات کے بعد انکی زندگی جو کہ پہلے ہی عوام کے لئے ایک پراسرار سی تھی اور پراسرایت کا شکار ہو گئی۔

انہوں نے بہت سے فلاحی ادارے بنائے کراچی، لاہور ،قصور میں بھی جو کہ انکا آبائی شہر بھی ہے۔ انہوں نے زندگی میں بہت سے خاندانوں کی کفالت کی،
جن میں رئیل اسٹیٹ ،سکول ،ہسپتال بنائے، شوکت خانم ہسپتال کے لئے سب سے پہلے خطیر رقم دی۔

وہ ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے ،اسی لئے اپنے معذور بچوں کا دکھ انکے دل سے نہ جاتا تھا، ان بچوں کو بیرون ملک ایک ادارے میں داخل کروادیا اور وہ وہیں رہائش پذیر ہیں۔

ہمارے استاد نے ایم۔اے اسپیشل ایجوکیشن کے دوران ایک دفعہ ہم سے کہا تھا کہ:

"خصوصی بچوں کے لئے دو طرح کے لوگ اپنی زندگی وقف کرتے ہیں ،ایک وہ جنہوں نے اس درد کو اپنے دل میں سہا ہو، دوسرے وہ جن کے دل میں ان بچوں کے لئے درد، چاہت اور محبت ہو۔۔”

حمزہ فاونڈیشن جس کا نا صرف برصغیر میں ایک نام اور مقام ہے ،یہ سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کی تعلیم و تربیت کا اپنی نوعیت کا بین الاقوامی شہرت کا حامل ادارہ ہے۔جہاں بچوں کو نا صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ بہت سے تربیتی روزگار کے پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے ، تاکہ ان بچوں کو جو کہ ہمارا معاشرے کا حصہ ہیں کو ایک فعال کارکن بنایا جا سکے تاکہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں، بلکہ آگے جا کر اپنے خاندان کی بھی مالی معاونت کر سکیں۔ اور ایسا ہو رہا ہے، کئی بچے یہاں سے تعلیم حاصل کر کے زندگی کی دوڑ میں سب لوگوں کر ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر معاشی دوڑ اور ملکی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں ۔الحمداللہ ،اس میں سیٹھ عابد کا ایک مرکزی کردار تھا اور رہے گا۔

تحقیق کے مطابق اکثر لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ سیٹھ عابد کا سکول گونگے بہرے بچوں کے لئے ہے، جو کہ غلط بھی نہیں ہے ۔ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔

میری یہ گورنمٹ آف پاکستان سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے استدعا ہے کہ انکو معاشرے اور ملکی خدمت کے عوض اعزاز سے نوازا جائے، تاکہ لوگوں کے اندر خدمت خلق اور جذبہ حب الوطنی کے احساس کو اجاگر کیا جا سکے،جو کہ اب خدوخام ہی دکھائی دیتا ہے ۔

اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرما کر آپ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے