رضیہ سلطانہ سے رضیہ محسود تک

"تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے ۔” آپ نے بھی یہ مشہور قول بار ہاں سنا ہوگا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی مکمل یقین نہیں آیا ہوگا۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ” سننا خود دیکھ لینے کے برابر نہیں ہو سکتا” یعنی اگر کسی واقعہ کو کسی سے سن لیا تو اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا خود اس کو دیکھ لینے کا ہوتا ہے۔اسی لیے قانون میں بھی "شاہد” یعنی خود دیکھنے لینے والے کا اعتبار ہے نہ کہ سننے والے کا لیکن اب میرا نظریہ بھی بدل گیا ہے۔ تاریخ کو دھراتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ آپ بھی دیکھ لیں تاکہ آپ کا یقین بھی "اقرا بااللسان و تصدیق بالقلب ” کی طرح ہوجائے۔

مملوک سلطنت جو خاندانِ غلاماں کے نام سے تاریخ کے صفحات پر مذکور ہے، ‘قطب الدین ایبک’ خاندان غلاماں کے پہلے سلطان ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ مملوک سلطنت کے چھٹے سلطان ایک خاتون رہی ہیں , جن کا نام رضیہ سلطانہ ہیں، آپ سلطان التمش کی بیٹی اور برصغیر کی پہلی مسلمان خاتون سلطان ہیں، جنہوں نے برصغیر پر چار سال حکومت کی ہے۔ آپ کی بہادری زبان زد عام ہے۔

وقت اور حالات کے ساتھ مقاصدِ قید و بند بدل جاتے ہیں۔ رضیہ سلطانہ کے زمانے میں سلطنت کا حصول سلطان یا جانباز جرنیل بننا بہادری کی اعلیٰ مثال اور کارہائے نامایہ سمجھا جاتا تھا اور رضیہ نے سلطان بن کر تاریخ کے صفحات پر اپنا نام کندہ کیا ،لیکن آج کا زمانہ بدل گیا ہے، چار سو انارکی ہے اور خواتین پر ہر طرف ، ہر طرح کے دروازے بند ہو گئے ہیں، اس کے نکلنے پر پابندی، اس کے کام پر گرفت، پڑھنے پر قدغن اور زبان پر تالے لگا دیئے ہوں۔ تب اٹھ کر میدان میں نکل کر سب آفات، مشکلات، دہشت گردی اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا ہی بہادری کہلاتی ہے اور اگر کسی نے جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ مقابلہ کیا تو بلا شبہ پہلا نام ” رضیہ محسود ” کا آتا ہے۔ اور یہی وہ نام نے جس نے تاریخ دھرانے کے نظریے کو تقویت بخشی ہے۔

رضیہ سلطانہ ایک معروف اور صاحبِ سلطنت خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ لیکن رضیہ محسود نہ صرف ایک گمنام خاندان سے تعلق رکھتی تھیں بلکہ آپ کے شناختی کارڈ پر ایک ایسے علاقے کا نام درج ہے، جو دہشت گردی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ جہاں جانے سے لوگ کتراتے تھے اور وہاں موت کے فرشتے گشت کیا کرتے تھے۔ اس علاقے کا نام "وزیرستان” ہے۔ جس طرح رضیہ سلطانہ نے "برصغیر کی پہلی مسلمان خاتون سلطان” کا اعزاز حاصل کیا، ایسے ہی رضیہ محسود نے "وزیرستان کی پہلی خاتون صحافی” کا تاج اپنے سر سجا لیا ہے۔

وزیرستان جہاں خواتین کا نام لینا بھی لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں، جہاں اس کی تعلیم پر قدغن رہی ہو، سیر و تفریح کا نام لینا عورت پر ممنوع ہو، ایسے میں تنِ تنہاء صحافت کے میدان میں نکل کر رضیہ محسود نے بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے، اور خواتین کے حقوق کے لیے ایک پل کا کردار ادا کیا ہے۔

رضیہ محسود صرف صحافت تک ہی محدود نہیں رہی ہیں، بلکہ سوشل ورک میں بھی اپنا نام روشن کیا ہوا ہے، آپ خواتین کے بنیادی حقوق و مسائل ، بچوں کی تعلیم اور دیگر اہم مسائل میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہیں اور اللہ کرے کہ آپ ہمیشہ سرخرو رہیں ،محسود قوم اور زیرستان کے لیے آپ کی خدمات ہمیشہ کے لیے جاری رہیں اور ہم مردوں اور صاحبِ سروت احباب کا فرض بنتا ہے کہ ہر مشکل میں آپ کے دست و بازوں بنے۔

(خواتین کے عالمی دن پر میری طرف سے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ آپ کی خدمت میں پیش ہیں…. گر از قبول افتند زہے عز و شرف)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے