گھریلو تشدد پاکستانی معاشرے کا سنگین مسئلہ ہے: امرخان

 اگر پاکستان کے صف اول کے اداکاروں کی اگلی فہرست بنائی جائے تو امرخان کا نام لازمی شامل کیا جائے گا. امر اپنے کرداروں کے انتخاب میں انتہائی محظاظ ہیں۔ چاہے ‘بیلاپور کی ڈائن’ کی نیلوفر ہو یا بھی ‘گھگھی’ کی نرملا، ہر کردار کو اس کی انفرادیت کے ساتھ نبھایا۔ آج کل جیو انٹڑینمنٹ پر چلنے ڈرامے قیامت میں امرنے ایک سیھی سادھی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جو گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ گوکہ ان کا کردار سیریل کی پندرہ سولہ اقساط بعد ختم ہوچکا ہے لیکن امر اس بات سے مطمئن ہیں کیونکہ ان کے خیال میں کسی کردار کا ڈھائی سے تین ماہ مستقل اسکرین پر رہنا اس کو یادگار بنانے کے لیے کافی ہے۔

آئی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں امر خان نے قیامت کے موضوع اوراس میں اپنے کردارپر بات کی۔

قیامت میں اپنے کردار کے بارے میں امر کا کہنا تھا کہ اس سے قبل انہوں نے بہت طاقتور اور پرزور قسم کے کردار کیے ہیں اس لیے قیامت میں سمیرا جیسی گھریلو تشدد کا شکار لڑکی جس کو بڑی تعداد میں لوگ خود سے وابستہ کریں ان کے لیے اس جمود کو توڑنے کا بہترین موقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ یہ ایک فارمولا پاکستانی ڈرامہ کا ہے لیکن ہمارے ملک میں بہت سی خواتین کو متوجہ کرتا ہے۔

"گھریلو تشدد اور خواتین پر زیادتی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ”

قیامت میں اپنے ساتھی اداکار احسن خان کو امر اس ڈرامے کے لیے ہاں کرنے کی بڑی وجہ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اداکار کے لیے ایک اسکرپٹ کو قبول کرنے کی تین سے چار بڑی وجوہات ہوتی ہیں، جن میں کہانی، ہدایت کار، چینل یا پلیٹ فارم جس پر فلم یا ڈرامہ چلے گا اور آخر میں دیگر کاسٹ شامل ہیں۔

"جب مجھے پتا چلا کہ اس ڈرامے میں احسن میرے مدمقابل ہوں گے تو میں نے فورا ہاں کردی۔”

امر نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کیریئر کی ابتدا احسن خان کے ساتھ ہی کی۔ "وہ ہم ٹی وی کی ایک مختصر دورانیے کی فلم تھی جو میں نے تب کی تھی جب میں فلم اسکول سے فارغ التحصیل ہوکر نکلی تھی۔ٗ”

ڈرامے میں اپنے اور احسن خان کی کیمسٹری کے بارے میں امر کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنے اور احسن کے کرداروں کو پڑھا تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ شوہر اور بیوی کی یہ جوڑی اسکرین پر بہت جاندار نظرآئے گی۔

"اس جوڑی میں مرد ایک امیر اور با اثر خاندان کا بگڑا ہوا لڑکا ہے اورعورت متوسط گھرانے کی پڑھی لکھی اور تمیزدار ہونے کے ساتھ کمزور بھی ہے جو اپنے فیصلے خود کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ میرے خیال میں دونوں کرداروں کی یہ متضاد خصوصیات ہی ناظرین کو پسند آئیں۔”

جب امر سے پوچھا گیا کہ وہ مناظر کرنا جن میں ان کے شوہر کو ان پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں تھپڑ مارنے سے لے کر دھکا دینا اور بال اور منہ نوچنا تک شامل تھا ان کے لیے کتنا مشکل تھا تو امر نے کہا کہ ایک اچھے اداکار کو اپنے کام میں توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

"اس معاملے میں میری اور احسن کی بہت اچھی ہم آہنگی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ کہاں زور سے منہ پکڑنا ہے اور کہاں صرف میرے تاثرات سے کام چل سکتا ہے ۔ میرے نزدیک وہ بڑے چیلنجنگ اور ایکشن اور اسٹنٹ سے بھرپور مناظرتھے۔”

امر نے مزید کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ کبھی کبھار اداکار ایک دوسرے کے ساتھ اس قسم کے مناظر کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ہر ایک کو پسند نہیں ہوتا کہ کوئی انہیں دھکا دے یا ایک مخصوص انداز میں ان کا منہ یا بال نوچے۔ "میرے لیے سچ یہی تھا کہ نہ وہ احسن خان ہے اور نہ ہی میں امر خان ہوں بلکہ ہم دونوں راشد اور سمیرا ہیں۔”

امر نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ہمیں ڈراموں میں خواتین پر صرف ظلم و تشدد کے علاوہ ان سے نکلنے کا راستہ بھی دکھانا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پروڈیوسر ان ہی کہانیوں کی طرف جاتے ہیں (چاہے وہ کسی مسئلے کی ہی عکاسی کرتی ہوں) جن سے زیادہ سے زیادہ سے لوگ تعلق جوڑ سکیں اور جو ان زندگیوں سے قریب ہو۔ ایسا صرف ڈرامے کی حد تک ہی نہیں بلکہ فلموں کا بھی یہی حال ہے۔ سلمان خان کی فلم میں ایکشن، کامیڈی، ٹریجدی، رومانس اور آئم نمبر سب شامل ہوتے ہیں اور وہ ہٹ بھی ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ ایک فارمولا ہے جس میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم تجرباتی کہانیوں پر کام کریں تو ان کے پہنچ زیادہ نہیں جاتی اور نتیجتا وہ اکثر فلاپ ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہر طرح کے موضوعات پر ڈرامے بنانے چاہئیں چاہے وہ معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوں یا پھر کسی تخیلیاتی کہانی ہوں۔

"قیامت میں اٹھائے گئے موضوع کے بارے میں امر کا کنا تھا کہ ان کے خیال میں گھریلو تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ٹیلیویژن پر آواز اٹھانی چاہئے۔ ان جیسے مسائل کو نطرانداز کرنا ان کی سنگینی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔”

ڈرامے کا معاشرے کی اخلاقی اقدار کو سنوارنے کے بارے میں امر کا کہنا تھا کہ میں جب بھی بطور ایک ناظر یا قاری کسی کہانی سے گزرتی ہوں تو ہمیشہ اس کا ایک اخلاقی اور سبق آموز پہلو اخذ کرتی ہوں۔ یہ دراصل دیکھنے یا پڑھنے والے پر منحضر ہے کہ وہ اس کا کیا مطلب نکالتے ہیں، وہ اس کے مثبت پیغام کی طرف جاتے ہیں یا پھر منفی کرداروں سے مرعوب ہوتے ہیں۔

"میرا خیال ہے کہ ہمارے ناظرین اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ اگر کسی ڈرامے یا فلم میں کوئی منفی کردار پیش کیا جارہا ہے تو وہ اس سے متاثر ہو کر اس کی نقل کریں گے۔ کہانیاں ہمیشہ ہی کسی واقعہ سے متاثر ہوکر لکھی جاتی ہیں چاہے وہ تاریخ کے اوراق سے لی جایئں یا پھر حال کے کسی عام واقعے سے۔ ان میں زیادہ تر ایک ہیرو اور ایک ولن ہوتا ہے تاکہ سچ کی جیت دکھائی جاسکے۔”

امر خان خواتین کے حقوق کی بھی علمبردار ہیں۔ خواتین کے لیے چلنے والی تحریکوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چاہے وہ عورت مارچ ہو یا پھر می ٹو، خواتین اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھارہی ہیں۔

"دنیا میں جہاں کہیں بھی کچھ غلط ہورہا ہو اس کے خلاف لوگوں کو آزادی اظہار رائے کا حق ہونا چاہیے۔ کوئی بھی تحریک بلا وجہ نہیں شروع کی جاتی۔ مثال کے طور پر مغرب میں گھریلو تشدد کے خلاف چلنے والی ایک مہم ‘آئی ایم ان بیٹ ایبل’ یعنی ‘میں ناقابل شکست ہوں’ کی کامیابی کی وجہ ہہی ہے کہ مسئلہ موجود ہی اور اس کے تدارک کے لیے اس طرح کی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ اس لیے ان کو روکنے یا ختم کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ان کو کامیاب ہونے میں شاید کچھ وقت لگے لیکن اگر ہمارے نیت صاف اور ارادے مضبوط ہیں تو تبدیلی ضرر ائے گی۔”

سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات پر ہونے والی پر خان کا کہن تھ کہ وہ انہیں نظر اندازکرتی ہیں، انہوں مزید کہا کہ اگر ایک ن کی پوسٹ پر 500 کمٹس آتے ہیں جن میں سے 490 مثبت اور 10 منفی ہیں تو قہ ان 490 کو اہمیت دیں گیں نہ کہ ان چند نفرت آمیز رائے کو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے