گوادر کے ماہی گیروں کی بستیوں کے مسائل

کئی سال پہلے کی بات ہے میں الامارات کی بوئینگ ائیر بس سے کراچی جا رہا تھا۔ کچھ وقت کے بعد اعلان ہوا کہ اس وقت ہم گوادر کے اوپر سے گزر رہے ہیں اور ایک گھنٹے سے پہلے کراچی انٹر نیشنل ائیر پورٹ پہنچیں گے۔ جہاز بہت اونچائی سے پرواز کر رہا تھا میں نےچھوٹی کھڑکی کا پرده سرکایا تو نیچے ایک چھوٹی کشتی کی مانند گوادر نظر آ رہا تھا اور وه چند منٹوں کے بعد نظروں سے بھی اوجھل ہوگیا. اتنی اونچائی سے نہ اس کی خوبصورتی کا اندازه لگایا جاسکتا تھا اور نہ اس کی خوشبو کی مہک محسوس ہوتی تھی۔

جن لوگوں نے گوادر کے بارے میں بہت کچھ سنا لیکن اس کو کبھی قریب سے دیکھا ہی نہیں صرف پڑھا یا اس کی خوبصورت لوکیشن کی خوبصورت تصویریں دیکھی ہوں گی تو وه کہتے ہیں کہ گوادر بہت ہی خوبصورت شہر ہے۔ یہ ملک کی تقدیر کو بدل دے گا لیکن ایک ماہی گیر کے لیے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔

کچھ لوگ گوادر کو پی سی ہوٹل کی اونچائی سے اور اپنی رنگین عینک سے دیکھتے ہیں ،انہیں بھی گوادر بہت خوب صورت شہر نظر آتا ہوگا اور کوئی اجنبی پہلی بار جب کوه باتیل اور پی سی ہوٹل کی اونچائی سے گوادر کو دیکھے گا اسے گوادر تین اطراف سے نیلے سمندر میں گھیرا ہوا ایک خوبصورت جزیرہ نما شہر نظر آئے گا۔ اس اونچائی سے نیچے واقعی گوادر بہت خوب صورت شہر دکھائی دیتا ہے۔

اب شاید گوادر کے ان ماہیگیروں کو گوادر کی ترقی سے زیاده اپنی بقا و سلامتی دامن گیر ہونے لگا ہے ،اپنے نقصانات اور خدشات و تحفظات نظر آنے لگے ہیں. ان کو اب احساس ہونے لگا ہے حالانکہ یہی مچھیرے کئی سالوں سے بہت کچھ برداشت کرتے چلے آ رہے تھے کہ حکمرانوں کے احساسات کب جاگیں گے؟ جب وه مایوس ہونے لگے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر مزید ہم خاموش رہیں گے تو یہ پرانے گهروں کی چھتیں ہمارے بچوں پر گریں گی۔

گزشتہ دنوں مقامی ماہی گیر تنظیموں نے ضلعی انتظامیہ سے اپنی ملاقات میں گوادر کے گزروان اور گولگری وارڈ کے مکینوں کی درخواست پر ان علاقوں کا سروے کرایا جو ایسٹ بے ایکسپریس وے کے قریبی علاقے ہیں، جو ایکسپریس وے سے کافی متاثر ہو چکے ہیں۔ علاقہ مکینوں کی درخواست پر گزشتہ دنوں ضلعی اتنظامیہ اور اس کی ٹیم نے جب گز روان اور کولگری وارڈ کےعلاقوں کا دوره کیا تو اس دوران علاقہ مکینوں نے اپنے کریک زده گھروں کی مرمت کے لیے معاوضہ کا مطالبہ کر دیا۔

جبکہ دوسری جانب کئی مہینوں سے سیوریج کا گندا پانی سمندر میں جانے کے بجائے علاقہ مکینوں کے لیے سر درد بن چکا ہے۔ گھروں کے سامنے گندے پانی کا جوہڑ جھیل کی صورت میں مہینوں سےکھڑی ہے۔ اس کی نکاسی آب کا اب تک کوئی موثر حل نہیں نکلا. اس کے علاوه ایکسپریس وے اور سڑک بنانے پر چائنیز جو ہیوی مشینری استعمال کر رہے ہیں گوادر کی قدیم آبادی اس سے کافی متاثر ہو رہا ہے۔ ان سے دن رات بھاری مشینری کے وائبریشن سے اس علاقے کے مکین نہ صرف ذہنی طور پر پریشان ہیں بلکہ ان کے گهروں کی دیواریں تک کریک ہو چکی ہیں اور ان میں اتنی استعداد نہیں کہ وه خود ان کی مرمت کراسکیں۔

سی پیک اربوں روپے کا پروجیکٹ ہے. ان میں کئی گھر گرنے کے قریب پہنچے ہیں۔ غریب مچھیروں کا کہنا ہے کہ گوادر کی ترقی سے ان کا زیاده نقصان انہیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے. اس کے فوائد شاید ملے یا نہ ملے یہ بات قبل از وقت ہے۔

حالانکہ 2018 سے پہلے جب ثنا الله زہری وزیر اعلی بلوچستان تھے ،انہوں نے گوادر میں ماہی گیر کالونی بنانے کا اعلان اور گوادر کے مقامی ماہی گیروں سے بہت سارے وعدے وعيد بھی کیے لیکن اس پر آج تک عمل در آمد کی نوبت نہ آئی۔

گوادر فش ہاربر ڈھوریہ کے ساحل سے لیکر تقریباً ساحلی پٹی کا کئی کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل قریبی رہائش پذیر غریب مچھیروں کی بستی کے اکثر گھر کریک ہو چکے ہیں. حالیہ دنوں ضلعی انتظامیہ نے ان علاقوں کا دوره مکمل کر کے سروے رپورٹ گوادر پورٹ اتھارٹی اور گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو پیش کی ہے کہ وه جلد ان متاثره علاقے کے غریب مچھیروں کی مالی امداد کریں اور ان کی متاثره املاک کا معاوضے کی فوری ادائیگی کی جائے. لیکن اس کے علاوه ڈهوریہ اور کوه بن وارڈ کے مکین بھی انتہائی مشکلات و پریشانی کا شکار ہیں۔

جی ڈی اے کے اکثر وبیشتر سیوریج لائن ابھی تک نا مکمل ہونے کی وجه سے ان علاقوں میں گندے پانی کی نکاسی نہ ہونے سے کئی مہلک امراض پھوٹ پڑے جن میں ملیریا، ڈینگی وائرس، نزلہ زکام، سانس کی مختلف امراض اور ڈائریا و ٹائیفائیڈ وغیره سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئی ہیں۔

گوادر کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مریضوں کو کراچی ریفر کیا جاتا ہے لیکن کراچی پہنچنے سے پہلے وه رستے میں ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں یا کراچی کے ہسپتالوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔

ان علاقوں میں کئی مسائل پیدا ہو چکے ہیں جہاں پینے کے پانی کی پائپ لائن گزر رہی ہے۔ کافی پرانے پائپ ہیں اور گل سڑ گئے ہیں جن میں بد بو دار پانی مکس ہونے سے علاقہ مکینوں کا اس کو استعمال کرنے سے وه کئی امراض کے شکار ہو چکے ہیں۔ڈهوریہ ملا بند وارڈ اور کوه بن وارڈ میں بد بو اور تعفن کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہے. خصوصاً ڈهوریہ اور کوه بن وارڈ میں گندے پانی کے ان جوہڑوں کے قریب رہنے والے مکین کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

لیکن جو لوگ ترقی کی گردان کرتے تھکتے نہیں ان کو اس شہر کی وه گندگی کبھی نظر ہی نہیں آتی. اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ماہی گیر اپنے نمائندوں سے بھی دلبرداشتہ ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ان مسائل سے بڑے مسائل سر اٹھا رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے