خدارا خوف کو زندہ رہنے دیں

وہ چلا گیا اور اس روز میرا خوف بھی زمین بوس ہوگیا، کھونے کا خوف زندہ رہنے کا خوف ہے، تنہائی کا خوف، اداسی کا خوف ، ہر وہ خوف جو مجھے آگے بڑھنے سے روکتا تھا، زندگی آگے بھر رہی ہے ،روز و شب گزر رہے ہیں، اگر کوئی چیز رک گئی ہے تو وہ منظر ان کے جانے کا منظر ہے، آخری سانسیں وہ تمام آدرشیں نا تمام خواہشات، جو میرے اندر کہیں دور سمو گئی ہیں، ہر گزرتا لمحہ ،ختم ہوتی سانسیں، میرے اندر ایک احساس کو جنم دے رہی ہے، ہم سب آدرشوں کے قبرستان میں زندہ ہیں، چاہے وہ کسی کی بھی ہو قطع نظر اس امر کے ان کے حصول میں ہم انسانی قدروں کو کھو رہے ہیں، ہم زندگی سے دور جا رہے ہیں اور الم ناک امر یہ ہے کہ ہم بے بس ہیں ، ہمیں زندہ رہنے سے محبت ہے ، زندگی سے نہیں ہم قطعیت چاہتے ہیں اور اس کی تگ و دو میں ہم ہر خوف کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ایک وقت تھا، جب مجھے بھی ایسی ہی زندگی کی چاہ تھی، کس کو نہیں ہوتی سرمایہ دارانہ نظام کی یہی تو بنیادی منشا ہے، سیاسی استحکام، پیسے کا آزادانہ لین دین، بلا رکاوٹ ہر چیز کا حصول
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

کیا خوب بیان کیا فیض نے میری زندگی کا motto بھی یہی تھا ,smooth flow certainity اس قدر قطعیت کہ اس کا جانا ٹھہر گیا اور وہ مجھے موم نہ کر سکا۔

آج اس قدرتی وبا نے مجھے وہ سب کچھ یاد دلا دیا، وہ دن، وہ لمحہ جب میں نے اسے کھویا اور میرا خوف ختم ہو گیا ،زندگی اس قدرcertain ہوگی کہ مجھے اس سے نفرت ہوگئی، یہ وبا بھی ہمیں زندگی سے طرف بلا رہی ہے ہر لمحے ہر سمے یہ یادہانی ہے اپنے پیاروں کی ان سے جڑی یادوں کی۔

زندگی خوف سے عبارت ہے خوف نئی منزلوں کا ،نئے راستوں کا، ان چاہے بندھن کا ،ڈھلتی جوانی کا، نئی پود کا، چھبتے ہوئے سوالوں کا اور اپنے زوال کا۔ ہر خوف ہمارے ارتقا کا ضامن ہے،خدارا اسے زندہ رہنے دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے