بساط بچھ چکی ہے۔ تمام مہرے آہستہ آہستہ اپنی جگہ پر آرہے ہیں۔ ان مہروں میں کئی مدت سے اپنے مقام پر موجود بار بار پیشقدمی بھی کر چکے ہیں۔ کہیں جیت، کہیں ہار اور کہیں مسلسل لڑائی جاری ہے۔
میدان جنگ وہی ہیں جن کی نشاندہی مخبرِ صادق سیدالانبیاء ﷺ فرما چکے۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں سے یہ آخری معرکہ لڑنا ہے، ان کی تمام تر منصوبہ بندی معروضی اور علاقائی حالات کے مطابق نہیں ہے بلکہ ان کی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کے مطابق ہے۔ مگر وہ پوری دنیا کو معروضی حالات، عالمی امن، اقتصادی صورتِ حال اور علاقائی معاملات کے مطابق منصوبہ بندی کا درس دیتے ہیں۔
ان کے بتائے ہوئے ان اصولوں کو مدِنظر رکھا جائے تو دنیا کی سب سے احمقانہ اور بے وقوف حرکت ایک بے سروسامان اور بے آب و گیاہ علاقے میں اسرائیل کا قیام ہے۔ یہ قیام وہاں پر آباد لوگوں کے لیے نہیں تھا بلکہ دو ہزار سال پہلے وہاں سے نکالے گئے یہودیوں کے لیے تھا۔ ان لوگوں کی ساٹھ سے زیادہ نسلیں یورپ اور دیگر ممالک میں زندگیاں گزار کر دفن ہو چکی تھیں۔ لیکن انھوں نے اپنی آنے والی ہر نسل کو ایک سبق ذہن نشین کروایا تھا کہ خواہ تم لندن، پیرس، نیویارک، برلن اور اسٹاک ہوم کے امیر ترین شخص بھی ہو جاؤ، تمہیں ان ملکوں میں سیاسی اقتدار بھی مل جائے، لیکن جب کبھی تمہیں ارضِ شام و فلسطین میں ایک ٹکڑا زمین مل جائے جہاں تمہاری حکومت قائم ہو تو تم نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں آباد ہو جانا ہے۔
ہے نا کس قدر احمقانہ، غیر سیاسی اور غیر اقتصادی حرکت۔ ایسا کرتے ہوئے کسی نے نہیں سوچا کہ معروضی حالات کیسے ہیں۔ چاروں جانب ایک ارب سے زائد مسلمان بستے ہیں، ہم ان کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں، وہ ہمارے خون کے پیاسے بن جائیں گے۔ پھر وہاں ہے کیا۔ ایک ریگستان، جس میں نہ کوئی پھل ہے نہ پھول، معدنیات بھی نہیں کہ ہم ملک کا اقتصادی پہیہ رواں دواں کر سکیں۔ کاروبار کے مواقع ہیں اور نہ ہی کوئی انڈسٹری۔ لیکن ان سب کو صرف ایک بات کا یقین دلایا گیا تھا اور نسل در نسل اس خواب کی آبیاری کی گئی تھی کہ ایک دن تمہارا مسیحا آئے گا اور وہ ارضِ فلسطین پر ایک ایسی حکومت قائم کرے گا جو پوری دنیا پر حکمران ہو گی اور تم نے اس مسیحا کی حکومت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ایک عالمگیر جنگ لڑنا ہے۔
آج کوئی سیکولر، لبرل، دفاعی اور سیاسی امور کا ماہر ایسی کسی پیش گوئی کا یقین کرتا ہے؟ سب مذاق اڑائیں گے کہ دنیا بھر میں اس قوم کی آبادی آدھا فیصد سے بھی کم ہے اور یہ ساڑھے ننانوے فیصد پر حکومت کے خواب دیکھ رہی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ دنیا کا ہر سیکولر، لبرل، جمہوریت پسند اور عالمی امن کا علمبردار یہودیوں کے اس خواب کی تکمیل کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کام کر رہا ہے۔
انھیں اس “ارضِ مقدس” میں آباد کرنے، وہاں ان کا قبضہ مستحکم کرنے سے لے کر ان کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی امداد تک انھی قوتوں نے کی ہے۔ اسرائیل کی مسلمانوں کے ساتھ ہر لڑائی میں یہ قوتیں سیاسی، اخلاقی اور فوجی سطح پر اسرائیل کے ساتھ رہیں اور آج وہ اسرائیل کے ممکنہ دشمن ملکوں کو بھی نیست و نابود کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا کی مغربی جمہوری طاقتیں صرف اور صرف اس ایک پیشگوئی پر ایمان رکھتی ہیں کہ ایک یہودیوں کا مسیحا فلسطین سے پوری دنیا پر حکومت کرے گا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی مصر، عراق، شام اور افغانستان پر جنگ مسلط نہ کرتا۔ کوئی اسرائیل کی بے جا حمایت کر کے، اس کے مظالم پر خاموش رہ کر اپنے ملکوں تک میں بسنے والے پرامن مسلمانوں کو تشدد پر مجبور نہ کرتا۔ پوری دنیا کے تجزیہ نگار اور سیاست دان اسرائیل اور اس کے مظالم کی حمایت کی ایک بھی عقلی دلیل نہیں پیش کر سکتے۔ کیا وہاں تیل کی دولت ہے جو مغرب استعمال کرتا ہے، معدنیات کے خزانے ہیں کہ بڑی بڑی کمپنیوں نے وہاں کام شروع کر رکھا ہے، دنیا کی مصنوعات کے بہت بڑی منڈی ہے جس سے ہر ملک کا مفاد وابستہ ہے۔ عالمی تجارت کا راستہ ہے کہ اسے کھلا رکھنا چاہیے۔
ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اس کے باوجود تمام عالمی طاقتیں اسرائیل سے کسی قسم کا مفاد حاصل کیے بغیر اس کی اس طرح حمایت کرتی ہیں کہ چاہے وہ ایٹم بم بنا لے، ہزاروں عورتیں اور بچے مار دے، دوسرے ملکوں کے علاقے پر قبضہ کر لے، لیکن پھر بھی اس کی پشت پناہی جاری رہتی ہے۔ اپنے ملک میں گیارہ ستمبر کروا لینا ہے، لندن، پیرس اور دیگر شہروں میں حملے کروا لینے ہیں، اپنے شہروں کی سیکیورٹی پر اربوں روپے خرچ کر لینے ہیں، لیکن اسرائیل کی حمایت نہیں ترک کرنی۔
اس کا مطلب ہے کہ دانستہ، یا نادانستہ طور پر پورا مغرب یہ سب کچھ سیاسی، معروضی اور اقتصادی وجوہات کی بنیاد پر نہیں کر رہا بلکہ ان کو بھی شاید یہودیوں کی طرح یقین ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے ایک بڑی جنگ لڑ کے ایک عالمی ریاست کو قائم کرنا ہے۔ اسی لیے تمام یہودی جنگ کے لیے ہمہ وقت مستعد ہیں، اور مغربی طاقتیں انھیں تمام سامان مہیا کر رہی ہیں اور ان کے خلاف منظم ہونے والے ہر دشمن کا قلع قمع کر رہی ہیں۔
لیکن ان تمام سیکولر، لبرل، جمہوریت پسندی اور عالمی امن کے داعی سیاست دانوں، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی منافقت اور دوغلا پن کا عالم یہ ہے کہ کوئی ریاست اگر اسرائیل کے مقابل کھڑی ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اسے دہشت گرد یا دہشت گردوں کی پناہ گاہ کہا جاتا ہے اور اگر کوئی گروہ ان کے مقابلے میں منظم ہونے لگتا ہے تو اسے عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاست دان، دانشور اور تجزیہ نگار مسلمان ممالک کو ہر روز یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تم اقتصادی، معروضی اور سیاسی حالات کے مطابق فیصلے کرو۔ اپنی حالت دیکھو، اپنی معاشیات کو بہتر بناؤ، اپنے ملکوں کو امن کا گہوارہ بناؤ، اپنے اندر سے ایسے افراد کا خاتمہ کرو جو اس آخری عالمی معرکے کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ کی پیش گوئیوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آخری فتح ہماری ہے۔
ہمیں اس کا ادراک ہو نہ ہو، اسرائیل کو اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اس کا اصل دشمن کون ہے۔ اسرائیل نے جب 1967ء میں مصر، شام اور اردن کے سیکولر حکمرانوں ناصر، اسد اور شاہ حسین کی افواج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تو اس کے پہلے وزیر ِاعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پیرس کی ساربون یونیورسٹی میں دنیا بھر کے یہودیوں کی کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا “بین الاقوامی صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈولوجیکل جواب ہے۔ پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے باعثِ مصیبت بن سکتی ہے۔ بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفید ہے” (یروشلم پوسٹ 9 اگست1967ء)۔ ممبئی حملے کیا ہیں۔ ان کو کس لیے ہر مذاکرات میں اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکر ہر مشترکہ اعلامیہ میں ان کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔
اس لیے کہ ممبئی حملہ بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ پر حملہ تھا۔ دنیا بھارت میں مرنے والے ایک لاکھ انسانوں کو تو پسِ پشت ڈال سکتی ہے لیکن ممبئی میں مرنے والے اسرائیلی ایجنٹوں کی موت کو بھلانے کے لیے تیار نہیں۔ سشما سوراج کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی ممبئی حملے کی یا د تازہ کی گئی جب کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو فراموش کر دیا گیا جس میں پاکستانیوں کو ٹرین کے دروازے مقفل کر کے آگ لگا دی گئی تھی۔ وقت، تاریخ اور حالات کی مخالف سمت سفر کرنے والے آج بھی سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت دوستی کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔
دنیا چاہے جتنے اقتصادی، سیاسی اور علاقائی تجزیے پیش کرے، ڈیوڈ بن گوریان اور اس کی قوم کی حکمتِ عملی اس سفر کے برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے “ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہندو، پاکستان اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے۔ یہ تاریخی دشمنی ہمارے لیے زبردست سرمایہ ہے۔ لیکن ہماری حکمتِ عملی ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں” (یروشلم پوسٹ۔ 9 اگست1967ء )۔ جس طرح یہودیوں کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ یہ عالمی جنگ برپا ہونی ہے۔ ویسے ہی ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ سید الانبیاءﷺ کی وہ حدیث ہے ۔
جس میں آپؐ نے صحابہ سے جہادِ ہند کے لیے وعدہ لیا، بشارت دی کہ اس لشکر پر جہنم کی آگ حرام ہے اور وقت بتاتے ہوئے کہا کہ جب آپ لوگ ہند کے حکمرانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لاؤ گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو اپنے درمیان پاؤ گے اور عیسیٰ ابنِ مریم کی آمد اسرائیل اور دجال کی شکست ہے۔ ( سنن نسائی، مسند احمد، بیہقی، مستدرک، الفتن)۔ جس طرح یہودیوں کا ایمان ہے کہ ہم نے جنگ لڑنا ہے اور وہ گھر بار اور عیش و آرام چھوڑ کر اسرائیل میں آباد ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہمارا بھی ایمان یہ ہونا چاہیے کہ جو کوئی ہند سے دوستی کرتا ہے وہ رسولِ اکرم ﷺ کے ساتھ کیے گئے عہد سے منہ موڑتا ہے۔ اور شاید اسی منہ موڑنے کی سزا ہمیں نہیں بلکہ پوری امت کو مل رہی ہے۔
بشکریہ:ایکسپریس