کرونا ویکسینیشن مہم میں پاکستان کہاں کھڑا ہے

امریکہ کی ساٹھ سال یا اس سے زائد آبادی پر مشتمل 80 فیصد آبادی کو کرونا ویکسین لگ چکی ہے، جرمنی چین روس اور دیگر ممالک کی کثیر آبادی کی بھی یہی صورت حال ہے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ریاستوں اور مختلف علاقوں میں اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ کورونا ویکسین لگانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، شہریوں کی زندگی صحت کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں ہماری حکومت شہریوں کے لیے ویکسین خریدنے کے بجائے عطیہ مانگ رہی ہے، جو چند لاکھ ویکسین چین نے عطیہ کی اور جس شرح اور تناسب سے یہ ویکسین لگائی جارہی ہے، اس حساب سے پاکستان کو آٹھ سے نو سال درکار ہیں کہ جس میں وہ اپنے شہریوں کو کرونا ویکسین سے محفوظ رکھ سکے۔

دوسری جانب اگر کوئی پیسے دے کر اپنے ذاتی خرچ پر ویکسین لگانا چاہے تو بھی حکومت اسے فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، گذشتہ روز اسلام آباد کے معروف شفا ہسپتال سے وابستہ میرے ڈاکٹر دوست سے اس بابت جب رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ شفا ہسپتال میں روس کی ویکسین لگائی جارہی ہے لیکن اسے فارما کمپنی نے صرف بارہ سو ویکسین سپلائی کیں ، جب کے ویکسین لگوانے کے لئے رجسٹریشن چند ہی روز میں پندرہ ہزار سے تجاوز کرگئی اور اب ہسپتال مزید ویکسین کی فراہمی کے لئے منتظر ہے۔

اس سے بڑھ کر حکومت کی کیا نا اہلی ہوگی ایک چیز دنیا میں دستیاب ہے اور جو شہری قیمت ادا کرکے خریدنا چاہتے ہیں انہیں فراہم نہیں کی جارہی، دوسری جانب جو وی آئی پی شخصیات سیاستدان اعلی افسران ہیں، انہیں گھر جا کر یا پروٹوکول کے ساتھ ان کے دفاتر میں لگائی جارہی چاہئے تو یہ تھا کہ ان سے فی ویکسین بارہ ہزار روپے وصول کئے جاتے اور جو کروڑوں روپے جمع ہوتے اس سے غریبوں کو زیادہ تعداد میں مفت ویکسین لگائی جاتی، اس وقت بھی چین کی ویکسین عوام کو فری مہیا کی جارہی ہے لیکن اس کی دستیاب تعداد اور سٹاک انتہائی قلیل ہے۔

ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت سے دفاع اور جنگی صلاحیت اور ساز و سامان میں بھی مقابلہ کرتے ہیں، کاش یہ مقابلہ سائنس اور ٹیکنالوجی معیشت اور تعلیم کے شعبہ میں بھی ہوتا بھارت کی معیشت عالمی فارما کمپنیوں کے لیے آرڈر پر ویکسین تیار کررہی ہے ، پوری دنیا میں بھارت کی تیار کردہ ویکسین ایکسپورٹ کی جارہی ہے، جس سے اسے زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے، آج ہی کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نمو ڈیڑھ فیصد رہنے کا احتمال ہے جبکہ دوسری جانب چین کی معاشی ترقی کی شرح نمو ساڑھے آٹھ فیصد کے قریب اور ہمسایہ ملک بھارت کی معاشی ترقی کی شرح نمو بارہ اشاریہ پانچ فیصد رہنے کا احتمال ہے۔

پاکستان کی معاشی صورتحال تشویشناک ہے اور ہماری حکمران اشرافیہ اپنی مراعات سہولیات اور پلاٹوں کے چکر سے ہی اوپر نہ اٹھ سکی اور دوسری جانب غریب عوام دو وقت کی روٹی اور روزگار کی سوچ سے ہی نہ اوپر اٹھ سکی اور یوں پاکستان ان دو انتہاؤں کے درمیان محبوس دکھائی دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے