شریعت کا نفاذ، مولانا عبدالعزیز کا ‘عدالتی راستہ’

لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے حکومتی اقدامات سے متعلق سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔

مولانا عبدالعزیز ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے ایک مہم بھی چلا چکے ہیں مگر ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

یاد رہے کہ مولانا عبد العزیز اس سے قبل بھی مارچ 2012 میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم بینچ میں درخواست دائر کر چکے ہیں جس میں ملک میں شریعت کے نفاذ اور انگریزی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

لال مسجد میں 2007 میں ہونے والے آپریشن میں معصوم افراد کی ماورائے عدالت ہلاکت کے کیس میں مولانا عبد العزیز نے سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ "ورنہ اللہ خود سوموٹو نوٹس لے لیں گے”۔

جمعرات کے روز عدالت میں دائر کی گئی پٹیشن میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آئین کے مطابق ایسے اقدامات کرنے کے احکامات دیئے جائیں، جس سے مسلمان اسلام کی تعلیمات اور احکامات کے مطابق قرآن کے وضع کردہ قوانین کے تحت زندگی گزار سکیں۔

پٹیشن میں صدر ممنون حسین، چار صوبائی گورنرز، قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق، وفاقی حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کو فریق بنایا گیا ہے۔

پٹیشن میں یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ صدر اور چار صوبائی گورنرز کو حکم دیا جائے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں شرعی قوانین میں پیش کیے جائیں جبکہ انہیں کی رو سے قانون سازی کی جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے بھی استدعا کی گئی ہے کہ کونسل کو ایسی سفارشات تیار کرنے کے احکامات تیار کرنے کا حکم دیا جائے جس کی رو پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرے جس سے مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور اسلام کے طے کردہ قواعد کے مطابق زندگی گزاریں۔

مولانا عبدالعزیز نے پٹیشن میں یہ استدعا بھی کی ہے کہ فریقین آئین کے آرٹیکل 31 (1،2 اور B) کے مطابق قرآن اور اسلامیات کی تعلیم کے مناسب اقدامات کریں، عربی کو سیکھنے کے بھی اقدامات کیے جائیں جبکہ ملک میں قرآن کی درست پرنٹنگ اور اشاعت کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقی اقدار کا فروغ کیا جائے۔

اسی پٹیشن میں ملک میں 5 سے 16 سال کے بچوں کی مفت تعلیم کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت اسلامی نظریات کی ترویج اور حفاظت کے حلف پاسداری کی جائے جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام ہوا تھا۔

واضح رہے کہ مولانا عبد العزیز اب سرکاری طور پر لال مسجد کے خطیب نہیں ہیں، وہ لال مسجد سے کئی سال سے منسلک ہیں جبکہ سرکاری طور اسلام آباد کی انتظامیہ نے ان کو لال مسجد کے خطیب کے عہدے سے 2004 میں ہٹا دیا تھا۔

اسلام آباد کی انتظامیہ نے اپریل 2014 میں اسلام ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کا نام انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں شامل ہے۔

فورتھ شیڈول بنیادی طور انسداد دہشت گردی کے قانون کی وہ شق ہے جس کے تحت کوئی بھی مشتبہ شخص دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی اداروں کی نگرانی میں رہتا ہے جبکہ اس شخص کا باقاعدگی سے مقامی پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہونا لازمی ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے