مذہب رحمت ہے!

مذہب خدا کی رحمت ہے۔ یہ انسان ہیں جواسے زحمت بنا دیتے ہیں۔

پروردگارِ عالم کا اعلان ہے کہ اس کی رحمت ہر شے کو محیط ہے۔ قرآن مجید میں یہ بات جس سیاق میں کہی گئی ہے اس کو پیشِ نظر رکھے بغیر، رحمت کی اس وسعت کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ یہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک باب ہے جسے منصبِ امامت پر فائز کیا گیا تھا اورپھر سرکشی پر معزول کردیا گیا۔ سیدنا موسیٰؑ خدا کے حضور میں طلب کیے گئے کہ ان کی قوم کو شریعت کی نعمت سے نوازا جائے۔ یہ چالیس دن کا عمل تھا۔ اپنی غیر موجودگی میں انہوں نے اپنے بھائی سیدنا ہارونؑ کواپنا جانشین بنایا۔ وہ بھی منصبِ نبوت پر فائز تھے۔ سیدنا موسیٰؑ کی غیر حاضری میں ان کی قوم نے ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ پھروہ اپنے کیے پر نادم ہوئے اور خدا سے معافی کی درخواست کرنے لگے۔

سیدنا موسیٰؑ لوٹے تواپنی قوم اور بھائی پر شدید غصے کا اظہار کیااور خدا سے معافی کیلئے ہاتھ ا ٹھا دیے ”میرے رب، تو مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما۔ تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے‘‘َ بنی اسرائیل نے یہ جرم، اللہ کے رسول کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد کیا، انہیں دنیا ہی میں اس کی سزا ملنا تھی۔ اس لیے دعا کے جواب میں بتایا گیاکہ جنہوں نے بچھڑے کو خدا بنایا، وہ دنیا میں اس کے غضب کا شکار ہوں گے کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا: تاہم جنہوں نے توبہ کی اورپھر ایمان کی تجدید کی، پروردگار ان کو بخشنے والا اوررحم فرمانے والا ہے۔

پھر حضرت موسیٰؑ نے سترافراد کا انتخاب کیاکہ وہ خدا کے سامنے پیش ہوں اور سب کی طرف سے معافی کی درخواست کریں۔ جب وہ مقررہ وقت پر پہنچے توخدا کے جلال کا ظہور ہوااور ایک زلزلے نے انہیں آلیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے اپنے رب سے کہا ”پروردگار اگر تُو چاہتا تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کردیتا‘ کیا تو ایک ایسے کام پر ہمیں ہلاک کرے گا جوہمارے اندر کے احمقوں نے کیا ہے؟ یہ سب تیری آزمائش ہی تھی۔ تواس سے جس کو چاہے، (اپنے قانون کے مطابق) گمراہی میں ڈال دے اورجس کو چاہے ہدایت بخش دے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ سو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرمااور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ (پروردگار) تم ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ اور آخرت میں بھی۔ ہم نے تیری طرف رجوع کرلیا ہے‘‘۔

جواب میں اللہ نے وہ جملہ ارشاد فرمایا جس میں اپنی رحمت کی وسعت کو بیان کیا ”میں اپنے عذاب میں تو اسی کو مبتلا کرتا ہوں، جسے میں (اپنے قانون کے مطابق) مبتلا کرنا چاہتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے‘‘۔ (الاعراف156:7)۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کی تفسیرمیں لکھا ”اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کررہا ہے، اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے، جس میں کبھی کبھی فضل اور رحم کی شان نمودار ہوجاتی ہو بلکہ اصل چیزرحم ہے جس پرسارا نظامِ عالم قائم ہے‘ اور اس میں غضب صرف اسی وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمرد حد سے فزوں ہو جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلدسوم، صفحہ 84)۔

اس واقعے کی یہ تمام تفصیلات سورہ اعراف میں بیان ہوئی ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے خدا کے طرف سے نازل ہونے والے دین کواپنی ہدایت اور رحمت کہا ہے۔ یہ آیات بتاتی ہیں کہ دین سرتاپا رحمت ہے اور خدا کی اس رحمت کا حصہ ہے جو ہر شے کو محیط ہے؛ تاہم جب لوگ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بچھڑے کو خدا سمجھنے لگتے ہیں تووہ اس کے غضب کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اصل دین وہی ہے جس کی سند، غلطی اور ظن کے امکان سے پاک، خدا کے نبی تک پہنچتی ہو۔

بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تو انہیں سزا ملی۔ انہوں نے خدا کے نبیوں سے ماورا خدا کوپانا چاہا، جوان کاخود تراشیدہ تھا۔ پھر شریعت کی بھی خود ساختہ تعبیرکی۔ ان کے مذہبی پیشوا خدا اور عوام کے درمیان حائل ہوگئے۔ اس رویے کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیحؑ کو ان کی طرف بھیجا۔ ‘عہدِنامہ جدید‘ تمام تراس طبقے کی رد میں نازل ہوا جس نے شریعتِ الٰہی کی نمائندگی کا دعویٰ کیا درآں حالیکہ وہ اپنی باتوں کو شریعت کے نام پر پیش کررہے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی باتیں انہیں اتنی ناگوار گزریں کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو مصلوب کرنا چاہا۔ یہ الگ بات کہ خدا نے ان کو محفوظ رکھا۔

پھر یہی غلطی سیدنا مسیحؑ کے پیروکاروں نے کی۔ مسیحیت کی روایت میں بھی مذہبی پیشواؤں نے یہ حیثیت اختیار کرلی کہ خدا کے نمائندے بن بیٹھے اورلوگوں میں نجات کے سرٹیفکیٹ بانٹنے لگے۔ خود ساختہ نظریات کو خدا کی سندکے ساتھ پیش کیا جسے انسانی سماج نے اگل دیا۔ پہلے سماج نے اہلِ مذہب کی اس حیثیت کوچیلنج کیا اورانہیں مذہب کا نمائندہ ماننے سے انکارکیا۔ اس کا ظہور پروٹیسٹنٹ تحریک کی صورت میں ہوا۔دوسرے مرحلے میں خود مذہب ہی کے بارے میں یہ موقف اپنا لیا گیا کہ اس کا وجود فی نفسہٖ انسانی سماج کی ترقی اورراحت میں حائل ہے۔ اس پر ایک طرح سے اجماع ہوگیا۔

آج اہلِ مغرب کا خیال ہے کہ انہوں نے پُرسکون زندگی کا راز دریافت کر لیاہے۔ راز یہ ہے کہ مذہب کو فرد کی شخصی زندگی تک محدود کرکے، اسے سماج اور ریاست کے معاملات سے دوررکھا جائے۔ وہ انفرادی رویوں کی اخلاقی تشکیل میں کوئی کردار ادا کرنا چاہے تو بسم اللہ۔ اگر اس سے باہر قدم رکھے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یوں انہوں نے اپنی دانست میں، سماج کوایک بڑے فساد سے محفوظ کرلیا۔ وہاں انسان ہرخوف سے آزاد زندگی گزارتا ہے۔

اس اندازِ فکر نے، ان کے مطابق، زندگی کواَن گنت نعمتوں سے مالامال کردیا ہے۔ مذہب ان کیلئے زحمت بن چکا تھا۔ اس سے نجات حاصل کرکے انہوں نے فرد اور سماج دونوں کے لیے بے شمار نعمتوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ وہاں کسی کا عقیدہ یا نظریہ دوسروں کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ کسی کو دوسروں سے اس لیے خوف نہیں ہے کہ اس کے مذہبی خیالات مختلف ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس طرح انہوں نے سماج کو جنت نظیر بنادیا ہے۔

کیا ہمارے لیے بھی ترقی کا راستہ یہی ہے؟ کیا ہمارے مذہبی خیالات ایک دوسرے کیلئے خطرہ بن چکے ہیں؟ کیا میرا مذہبی رویہ، دوسروں کی جان و مال کیلئے خطرناک ہوچکا ہے؟ اس ملک کاہر شہری امن اورسکون کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ کیا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے گروہ میں شامل ہوجائے جس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ بنامِ خدا، دوسروں کا سر قلم کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا خدا کے دین کا منشا یہی ہے؟

اللہ تعالیٰ کا دین میرے لیے ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ اِس دین کے نام پر میرے بچے ایمولینسوں میں دم توڑ دیتے ہیں اور انہیں ہسپتال پہنچنے کی مہلت نہیں ملتی؟ ایسا کیوں ہے کہ جب کوئی مذہبی نعرہ بلند ہوتا ہے تو میں سہم جاتا ہوں؟ میرا دین، دینِ رحمت ہے اور میرے رسولﷺ… آپ پر میرے ماں باپ فدا، عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ کون اس رحمت کی چادرکو میرے سرسے اتارنا چاہتا ہے؟
میں اس رحمت کے سائے میں جینا چاہتا ہوں۔ میں اہلِ مغرب کی طرح نہیں بننا چاہتا۔ کوئی مجھے بتا سکتا ہے یہ کیسے ممکن ہوگا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے