آٹھواں عجوبہ

اس حکومت کو اگر عجائباتِ عالم میں شمار کیا جائے تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ۔

ایک دن وزیراعظم بالاہتمام قوم سے مخاطب ہوتے اور اسے سمجھاتے ہیں کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے ملک کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے اور پھر یہ کہ اس کا فائدہ بھی کچھ نہیں‘ اس لیے یہ کارِ عبث نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہم کرنے جا رہے ہیں۔ ابھی ان کی آواز سماعتوں میں تازہ تھی کہ ملک کے وزیر داخلہ نے سفیر کودیس نکال دینے کیلئے، قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا اعلان کردیا اور اس بات پر اپنے ہاتھوں کالعدم ٹھہرائی ہوئی تنظیم سے معاہدہ کرلیا۔

اب دوہی امکانات ہیں: ایک یہ کہ حکومتی ایوانوں میں سنجیدہ غوروفکر کاکوئی نظام سرے سے موجود نہیں۔ وزیراعظم کو کچھ اندازہ نہیں کہ قوم سے خطاب کی کیا اہمیت ہے اور وزرائے اعظم جب قوم کواعتماد میں لینا ضروری سمجھتے ہیں توکیوں؟ دوسرا امکان یہ ہے کہ وزیرداخلہ وزیراعظم سے نہیں، کہیں اورسے ہدایات لے رہے ہیں یا ان کی وزارت وزیراعظم کے تابع نہیں۔ حکومت کی سطح پر کمانڈ کی وحدت موجود نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرداخلہ یہ اعلان تنہا نہیں کررہے۔ ان کے ساتھ مذہبی امور کے وفاقی وزیر، پنجاب کے گورنر اور وزیر قانون بھی موجود ہیں۔

دونوں میں سے جوامکان بھی تسلیم کرلیا جائے، اُس کے بعد اس حکومت کے بارے میں کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے؟ کیا اس کے بعد اسے عجائباتِ عالم میں شمار نہیں کرنا چاہیے؟ یہ ایک واقعہ نہیں، سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے۔ ایسی حکومتیں تاریخ میں رہی ہیں جن کے احکام میں ربط تلاش کرنا محال ہو لیکن استہزا کی علامت بن کر ‘سکھا شاہی‘ ایک اصطلاح بن گئی جو ان حکومتوں کیلئے خاص ہوگئی جہاں اس طرح فیصلے ہوتے ہوں۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ اس دور کے لئے بھی کوئی نیا نام نہ رکھنا پڑ جائے۔

وزیراعظم کا خطاب اس اندازِ حکمرانی کی بہترین شہادت ہے۔ تحریکِ لبیک ایک مقامی مسئلہ ہے جسے وہ بین الاقوامی بنانے چلے ہیں۔ آپ کو اپنی قوم کو جمع کرکے، ایک مقامی مسئلہ حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، لیکن آپ پوری امتِ مسلمہ کو جمع کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس ملک کے وزیراعظم بنائے گئے ہیں۔ یہاں بسنے والوں میں وحدتِ فکروعمل پیدا کرنا آپ کی آئینی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے آپ تیار نہیں لیکن چلے ہی پچاس ریاستوں کو اکٹھا کرنے۔

دکھائی یہ دیتا ہے کہ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ کیا یہ خطاب کوئی موقع تھا نوازشریف پر تنقید کا اور وہ بھی غلط تاریخی حوالوں کے ساتھ؟ سلمان رشدی کی کتاب شائع ہوئی تو یہاں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور اعتزاز احسن وزیر داخلہ تھے۔ اسلام آباد احتجاجی جلوس نکلا تواس پر فائرنگ ہوئی۔ خان صاحب نے یہ سب نوازشریف صاحب کے سرڈال دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف ان کے ا عصاب پر سوار ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ نون لیگ چند تنقیدی بیانات تک محدود رہی۔ یہ تنقید بھی حکومت کی نااہلی پرتھی اوراسے نمایاں کرنا ضروری تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلسِ عمل کی نمائندگی کرتے ہوئے بیان دیا لیکن عملاً کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کی تحسین کرنے کے بجائے وزیراعظم نے یہ مناسب سمجھاکہ اس حساس معاملے پر بات کرتے ہوئے بھی اپوزیشن کوتنقید کے نشانے پررکھیں۔

جوکسر رہتی تھی، وہ وفاقی وزرا نے پوری کردی۔ مذہبی امور کے وزیر صاحب نے مسلم لیگ نون کومطعون کیا حالانکہ وہ جس واقعے کا حوالہ دے رہے تھے، اس میں تحریک انصاف بھی پوری طرح شریک تھی۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے اسمبلی میںجس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، وہ ان کے شایانِ شان نہیں تھا۔ ان کا تعارف ایک سنجیدہ اور صاف ستھرے سیاستدان کا ہے۔ ان کے رویے نے ان کی ساکھ کونقصان پہنچایا۔ ان جیسا آدمی بھی اگر شہبازگل کو آئیڈلائز کرے گا توپھر سیاست کے دامن میں کیا رہ جائے گا؟

حکومت کی ذمہ داری لیکن اس کے سوا ہوتی ہے۔ کیا عباسی صاحب کوجواب دینا ضروری تھا؟ کیاچند دنوں کیلئے جذبات کو تھاما نہیں جا سکتا تھا؟ فواد چوہدری صاحب نے جواباً فرمایاکہ شاہد خاقان ایک جوتا ماریں گے تو ہم سو جوتے ماریں گے۔ کیا اس موقع پر حکومتوں کا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے؟ کیا صبر اور حکمت کے الفاظ حکومت کی لغت سے نکل چکے؟ اسد عمر صاحب نے البتہ اچھی گفتگوکی اور موقع کی نزاکت کا احساس کیا۔ انہوں نے یہ تسلیم کیاکہ اپوزیشن کی دین سے وابستگی کسی طور حکومت سے کم نہیں۔ وزیرِ مذہبی امور نے تو خوشامد کی حد کردی، فرمایا کہ وزیراعظم کا اسلام سے وہ تعلق ہے جو کسی پیر کا ہے نہ مولوی کا۔ معلوم ہوتا ہے وہ اپنے سوا پیروں اور مولویوں سے کم ہی واقف ہیں۔

اب آئیے قرارداد کی طرف۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی قرارداد ایوان میں پیش نہیں ہوئی۔ یہ ایک نجی قرارداد ہے جو ایک رکن اسمبلی کی طرف سے سامنے لائی گئی۔ حکومتی قرارداد تو وہ ہوتی ہے جو کوئی وزیر یا حکومتی نمائندہ پیش کرتا ہے۔ ابھی تک سفیر کی ملک بدری کے باب میں حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ کیا حکومت ابھی تک وہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے جو اس نے کالعدم تحریکِ لبیک سے، اس سے قبل روا رکھا تھا؟

تحریکِ لبیک سے دراصل کیا معاہدہ ہوا ہے، اس کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گی۔ سعد رضوی صاحب پر دہشتگردی اور قتل کے مقدمات قائم ہیں، کیا وہ برقرار رکھے جائیں گے؟کیا تحریکِ لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے گا؟ ان اہم سوالات کے جواب ابھی تک میسر نہیں ہیں۔ ثالثی کے نام پر متحرک لوگ اشارہ دے رہے ہیں کہ یہ تنظیم بحال ہو جائے گی۔ کیا یہ بات کسی غیراعلانیہ معاہدے میں شامل ہے؟

یہ ابہام کیسے پیدا ہوا؟ شفافیت کا فقدان کیوں ہے؟ ان سوالات کے جواب شاید کوئی حکومتی نمائندہ نہ دے؛ تاہم وقت بہت بے رحم ہے۔ وہ جواب ڈھونڈ لائے گا، جس طرح اس نے 2014ء کے دھرنے کے گرد پھیلے سوالات کے جواب تلاش کر لیے تھے۔ حکومت کیلئے ایک آسان راستہ موجود تھا کہ وہ اس مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس بلا کر ایک قومی موقف اختیار کرتی اور ذمہ داری کو سب پر تقسیم کردیتی۔

یہ توقع مگر ہمیں ایک عام حکومت سے کرنی چاہیے جو سیاسیات کے اصولوں کے تابع سیاست کرتی ہو۔ اس حکومت کے اصول اپنے ہیں اور طرزِعمل بھی اپنا۔ وہ جوکام کرتے ہیں، اس کے بارے میں ان کا اپنا کہنا یہ ہے کہ ‘یہ پہلی بار ہورہا ہے‘ اسی لیے میں اسے عجائباتِ عالم میں شمار کرنے پر مجبور ہوں کہ ‘عجیب‘ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ پہلی بار ہوتا ہے۔

(پس ِتحریر:اسلام آباد کے مرکز میں ایک صحافی پر حملہ ایک ایسی خبرنہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکے۔ایسے واقعات رجوع الی اللہ کی دعوت ہیں کہ زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔تحقیقات کا مطالبہ میرے نزدیک ایک بے معنی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔اس سے قبل صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی کون سی تحقیقات ہوئیں؟جب انسانوں کا بنایا ہوا نظام ،داد رسی پر آمادہ نہ ہو تو پھر خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ عالمِ اسباب سے ماورا،اپنے بندوں کے جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت فرمائے۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے