ایبٹ آباد آپریشن سے قبل امریکہ کے لئے جاسوسی نہیں کی تھی : ڈاکٹرشکیل آفریدی

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد آپریشن میں مبینہ طور پر ملوث ڈاکٹرشکیل آفریدی کا استدلال ہے کہ انہوں نے ایبٹ آباد آپریشن سے قبل امریکہ کے لئے جاسوسی نہیں کی تھی اور انہوں نے صرف ہیپاٹائٹس بی کے لئے ایک آگہی مہم چلائی تھی، ڈاکٹرشکیل آفریدی کو 23 مئی 2011ء کو انٹیلی جنس اداروں نے تحویل میں لیا تھا اور ٹھیک ایک سال بعد اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے چار مختلف دفعات کے تحت ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کالعدم لشکراسلام سے تعلق رکھنے کے جرم میں 33 سال قید کی سزاسنائی تھی، اسکے علاوہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو تین لاکھ 30 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا تھا، بعدازاں ایف سی آرکے تحت گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مقدمے سے ایک دفعہ کوختم کر دیا گیا اور ان کی سزا 23 سال رہ گئی ۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سزا دیتے وقت قانون نافذ کرنےوالے پانچ انٹیلی جنس اداروں نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ مرتب کی تھی، جس کے تحت انہیں سزا ہوئی تھی۔

[pullquote]جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا ہے۔۔؟[/pullquote]

قانون نافذ کرنےوالے پانچ انٹیلی جنس اداروں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرشکیل آفریدی نے امریکی اداروں کے لئے جاسوسی کی ہے اور اس کے علاوہ انکے کالعدم لشکر اسلام کےساتھ قریبی تعلقات تھے، واضح رہے کہ یہ رپورٹ 2012ء میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ ناصر خان کے دفترمیں جمع کی گئی تھی ،اس رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرشکیل آفریدی مارچ 1964ء کو ضلع خانیوال کے علاقہ میاں چنوں میں پیدا ہوئے، خیبرمیڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد1991ءمیں تعینات ہوئے (کس محکمہ میں اور کیا تعینات ہوئے) ، رپورٹ میں کہاگیاہے کہ وہ مختلف عہدوں پر تعینات تھے، 2008ء میں پشاورمیں امریکی تنظیم سیو دی چلڈرن کی ایک ورکشاپ میں ان کی ملاقات ادارے کے سربراہ ”مائیکل اکامائیک“ سے ہوئی انہوں نے ڈاکٹر شکیل کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی ایف 7 کے سعید بک بینک کے قریب مائیکل نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اورایف 6 میں واقع گھر لے گئے جہاں ان کی ملاقات ایک 38 سالہ خاتون ”کیٹ“ سے کرائی گئی ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کے بعدکیٹ نے اگلے مہینے پھر ملنے کی خواہش ظاہر کی اور اس طرح ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی نے 2009 سے لیکر 2011ء تک مختلف بیرونی اہلکاروں کیٹ، ٹونی، سارہ اور سوئی سے مجموعی طور پر 26 ملاقاتیں کیں اوریہ ملاقاتیں ہر ہفتے کی شام کو ہوا کرتی تھیں ۔

[pullquote]ملاقاتوں کاطریقہ کار کیا تھا۔۔؟[/pullquote]

2012ء میں جمع کی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی جن امریکی اہلکاروں سے ملے تھے وہ خود گاڑیاں چلا کر آتے تھے ڈاکٹرشکیل جونہی گاڑی میں بیٹھتے ان کو گاڑی کی پچھلے حصہ میں منتقل ہونے کی ہدایت کی جاتی جونہی ڈاکٹر شکیل لیٹ جاتے اس کے اوپر ایک کمبل ڈالا جاتا تھا رپورٹ کے مطابق گاڑی تقریباً پندرہ سے پچیس منٹ مختلف راستوں پر سفر کرتی ہوئی کنٹینرز کے جم غفیر کے سامنے کھڑی ہوجاتی ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکی اہلکاروں کے ساتھ ایک کنٹینرمیں داخل ہوتے رپورٹ کے مطابق کنٹینر تمام جدیدسہولیات جیسے ائرکنڈیشنڈ، فریج، ایل سی ڈی اور دیگر سہولیات سے آراستہ ہوا کرتا تھا. ملاقات تقریباً 20 سے 30 منٹ تک جاری رہتی اور اس کے بعد ڈاکٹر شکیل کو دوبارہ گاڑی کی پچھلی سیٹ میں لٹا کر اس کے اوپر کمبل ڈال دیا جاتا اور انہیں اسلام آباد کے مختلف مقامات پر اتار دیا جاتا. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010ء کے بعد جب ڈاکٹر شکیل آفریدی کنٹینرمیں داخل ہوتے تو دو افراد پہلے ان کی تلاشی لیتے تھے. اسلام آباد میں ان تمام ملاقاتوں کے دوران سلوراور نیوی بلو رنگ کی ڈبل کیبن گاڑیاں استعمال کی گئیں. امریکی اہلکار سارہ سے دوسری ملاقات کے دوران ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ایک ریڈیو سیٹ اور لیپ ٹاپ دیا گیا تاکہ پیغامات کی فراہمی میں آسانی ہو. انہیں بتایا گیا کہ یہ ریڈیو سیٹ سٹیلائٹ سے منسلک ہے۔

[pullquote] ایبٹ آباد میں ویکسینیشن مہم کیوں چلائی گئی۔۔؟[/pullquote]

ڈاکٹر شکیل کا امریکی اہلکار ٹونی سے جب ملاقاتوں کاسلسلہ جاری تھا توانہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو چھ سے سات ہیپاٹائٹس بی مہمات کے لئے فنڈ فراہم کیا. اس کے علاوہ ڈاکٹرشکیل آفریدی کے ہسپتال کو کچھ آلات کی فراہمی بھی کی گئی. جنوری 2011ء میں سوئی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بتایا کہ باغ، مظفرآباد، مانسہرہ اور ایبٹ آباد میں ہیپاٹائٹس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر وہاں کی خواتین کے لئے ویکسینیشن کی اشدضرورت ہے. ڈاکٹر شکیل نے ان مہمات کے لئے 53 لاکھ کا تخمینہ لگایا. یہ مہم مختلف علاقوں میں جاری تھی کہ سوئی نے ڈاکٹر شکیل کو ہدایات جاری کی کہ ایبٹ آباد کے بلال ٹاﺅن میں پٹھان سٹریٹ جا کر خود ہیپاٹائٹس مہم کی نگرانی کریں. اس دوران اپنے ریڈیو سیٹ کو آن رکھے. یہ بھی ہدایات جاری کی گئی کہ ہیپاٹائٹس ویکسینیشن کے دوران استعمال کی گئی تمام سرنج، کٹس اورخالی بوتلیں واپس اسلام آباد پہنچائی جائیں۔

آمنہ جدون جولیڈی ہیلتھ ورکر تھی کے ذریعے پٹھان سٹریٹ میں صبح ساڑھے نو بجے مہم کا آغاز کیا گیا. اس دوران آمنہ جدون نے بتایاکہ ایک گھر کے علاوہ باقی تمام گھروں کی 15 سے 45 سال کی عمر تک کی خواتین کو ویکسینیشن کی گئی۔ ایک گھر جس میں وزیرستان کے دو بھائی اپنے خاندان کےساتھ رہتے تھے اپنی دشمنی کی وجہ سے وہ کسی کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے. پڑوسیوں سے اس گھر کا نمبر لے کر جب مقامی شخص سے رابطہ کیاگیا تو اس نے بتایاکہ وہ باہر ہے اور پھر شام کوبات ہوگئی. لیکن وہاں پر ویکسینیشن نہ ہوسکی ڈاکٹر شکیل نے شام ساڑھے پانچ بجے تمام بوتلیں لیکر اسلام آبادمیں رہائش پذیرسوئی کے حوالے کیں جس کے عوض انہیں 53 لاکھ روپے اداکئے گئے۔

[pullquote]ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کب گرفتارکیاگیا۔۔؟[/pullquote]

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق چھ مئی 2012ء کو سوئی نے دوبارہ ڈاکٹر شکیل کواسلام آباد طلب کیا. کنٹینر میں اسی طرح ملاقات ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ ایبٹ آبادکے جس علاقے میں انہوں نے مہم چلائی تھی وہاں آپریشن کے دوران اسامہ بن لادن ماراجا چکا ہے اس لئے ڈاکٹر شکیل فوری طو رپر افغانستان منتقل ہوجائیں. انہیں ایک نمبر دیا گیا کہ کابل پہنچ کر وہ اس نمبر پر فون کریں اس کے بعد امریکی اہلکاراسے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیں گے. انہیں یہ بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ انہیں فراہم کیا گیا ریڈیو سیٹ بھی توڑدیاجائے ، ڈاکٹرشکیل آفریدی نے انہیں بتایاکہ انہوں نے اسامہ بن لادن کے آپریشن میں کوئی کردارادانہیں کیا. اس لئے انہیں بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ افغانستان نہیں جاناچاہتے. کچھ دن بعد 22 مئی کو ڈاکٹرشکیل آفریدی کو پشاورکے قریب انٹیلی جنس اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے