ایک یرغمالی کا انٹرویو

ہمارے روز مرہ کے بعض حالات جن پر لکھنے کی میں کوشش کرتا ہوں اپنا ایک پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ کئی معاملات میں مسلمانوں کا اس قدر شدت کے ساتھ ردعمل بلاوجہ اور بلا سبب نہیں ہے۔ ’داعش‘ وغیرہ کے پس منظر کی تلاش میں مسلمانوں کی تاریخ سے کچھ اشارے ایسے بھی ملتے ہیں جن کو سامنے رکھیں تو مسلمان تنظیموں کی یہ سامراج دشمن کارروائیاں بلا سبب اور محض دہشت گردی دکھائی نہیں دیتیں ان کا ایک ٹھوس پس منظر بھی ہے اس ضمن میں مجھے ایک ایسے غیر مسلم نوجوان کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا جسے لبنان میں حزب اللہ نے یرغمال بنا لیا تھا۔
اگر اسے ’’داعش‘‘ یعنی دولت اسلامیہ عراق و شام کے سخت گیر لوگوں نے پکڑا ہوتا تو ہم اس کے قلم شدہ سر کی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے۔ جن لوگوں کو 1980ء کے عشرے میں یرغمالی کی حیثیت سے وقت گزارنا پڑا ان میں یہ نوجوان برائن کینان نامی بھی تھا جس نے قلم سنبھالا اور اپنے حالات و واقعات کی روشنی میں اپنے پورے عہد کا تجزیہ کیا اور ایک کتاب بھی لکھی جو مدتوں تک زندہ رہے گی۔ اس کتاب میں کینان نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاں ہر طرف ظلم اور ناانصافی ہو وہاں بھی انسان کی اندر کی انسانیت کو کس طرح زندہ رکھا جا سکتا ہے اب کینان کے انٹرویو کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیے۔
برائن کینان نے لبنان میں حزب اللہ سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والوں کے ہاتھوں یرغمالی کی حیثیت سے ساڑھے چار سال گزارے۔ پیرس میں جو کچھ ہوا‘ وہ میرے لیے بھی اتنا ہی حیرت انگیز اور المناک تھا جتنا کسی اور کے لیے ہو سکتا تھا۔ ایسے میں میرے لیے لازم ہو گیا کہ برائن کینان سے رابطہ کر کے اس سے ان لوگوں کی ذہنیت کے بارے میں کچھ معلوم کروں جو بے قصور لوگوں پر ستم ڈھاتے ہیں‘ انھیں موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔
کینان کو لبنان میں حزب اللہ سے قربت رکھنے والوں نے یرغمال بنایا تھا۔ اگر اسے عراق یا شام میں دولۃ اسلامیہ عراق و شام یعنی داعش والوں نے پکڑا ہوتا تو اب تک ہم اس کا سر قلم کیے جانے کی ویڈیو دیکھ رہے ہوتے۔ 1980ء کے عشرے میں جن لوگوں کو یرغمالی کی حیثیت سے طویل مدت تک غیر یقینی کیفیت سے دو چار رہنا پڑا تھا‘ ان میں برائن کینان واحد شخص ہے جس نے قلم سنبھالا اور اپنے حالات و واقعات کی روشنی میں پورے عہد کا تجزیہ کیا اور “An Evil Cradling” کے عنوان سے ایسی کتاب لکھی جو سو سال زندہ رہے گی۔ اس کتاب میں انھوں نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاں ہر طرف ظلم اور ناانصافی ہو‘ وہاں بھی اپنے اندر کی انسانیت کو کس طور زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
کینان‘ شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے آئرلینڈ کے علاقے ویسٹ پورٹ میں اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے کافی کی چند چسکیاں لیں اور بہت دھیمے لہجے میں بولنا شروع کیا۔ کینان انٹرویو دینے کا شوقین نہیں۔ اسے زیادہ بات کرنا بھی پسند نہیں۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’جو کچھ پیرس میں ہوا وہ ایسا نہیں ہے کہ راتوں رات ہو جائے یا کر دیا جائے۔
ایسے کام کے لیے بھرپور منصوبہ تیار کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ایک خاص ٹائم فریم میں۔ مگر میں یہ بات بھی جانتا ہوں کہ قتل عام کے لیے کسی کمٹمنٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پیرس میں قتل عام سے مجھے ذرا حیرت نہ ہوئی۔ حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ قتل و غارت کا جو کلچر مشرق وسطیٰ میں پختہ ہو چکا ہے‘ وہ اب یورپ کی سرزمین تک آ پہنچا ہے۔ جو کچھ پیرس میں ہوا ویسا ہی کچھ بیروت میں چوبیس گھنٹے قبل ہوا تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ بعض دائروں میں اس قتل عام کو انتہائی درست قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے دلائل بھی دیے جا رہے ہیں۔
کینان نے جو وقت بیروت میں یرغمالی کی حیثیت سے گزارا تھا‘ وہ اب تک اس کے دل و دماغ سے نکلا نہیں۔ وہ آج بھی بات کرتا ہے تو اس کے لہجے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے جیسے وہ اب بھی خود کو یرغمالی ہی سمجھتا ہے۔
کینان کہتا ہے: ’’اب اہم سوال یہ ہے کہ صورت حال کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کے درمیان یرغمالی کی حیثیت سے ساڑھے چار سال گزارے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ محض انتقام ہے۔ انتقام اسی وقت لیا جاتا ہے جب کچھ غلط ہوتا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ اسلامی دنیا کی طرف سے قتل عام کے جواب میں بمباری یا گولا باری کی جائے۔ انھیں انصاف چاہیے۔ ان کے مسائل پر توجہ دینے اور نرمی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اسلامی ممالک میں لاکھوں بے قصور افراد کو محض قانونی اور جائز کارروائی کے نام پر مارا گیا ہے۔ عراق اور شام میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ وہ لوگ ناانصافی اور خون ناحق کے بہنے پر مشتعل ہوتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ان سے زیادتی بند کی جائے۔ مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دیکھیے۔ اس میں سرحدیں کئی بار تبدیل کی گئی ہیں۔ بہت سی سرحدیں اب یکسر غیر موثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہ سب کچھ مغربی طاقتوں نے کیا ہے۔ جو کچھ مغربی حکومتیں کرتی ہیں‘ اس کا خمیازہ مغرب کے عام باشندے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ اگر مغرب کو مسترد کرتے ہیں‘ مغربی طرز زندگی کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان پر بہت کچھ تھوپا جا رہا ہے‘‘۔

بشکریہ:ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے