آئندہ کے خدوخال

دھیرے دھیرے سہی لیکن بات کچھ سمجھ میں آنے لگی ہے ۔ ووٹ کو عزت ملے گی لیکن عزت سمیٹنے والا کوئی اور ہوگا۔ وہ اس لئے کہ آنرایبل جج صاحب محمد بشیر کی مہربانیوں کے طفیل نوازشریف کا پتا کٹ چکا ہے ۔ وہ لندن میں ہیں اور اگلے انتخابات تک انہوں نے وہیں رہنا ہے۔ جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے اُن پہ بھی سزا کا ٹھپہ لگا ہوا ہے اور اس ٹھپے نے آئندہ انتخابات تک لگے رہنا ہے۔

لیکن راستے کسی کیلئے صاف ہو رہے ہیں اور اُس کا نام شہباز شریف ہے۔ یہ کسی سکیم یا پلان کے تحت نہیں ہورہا لیکن ہوائیں ہی ایسی چل رہی ہیں جو اُن کیلئے آسانیاں پیدا کر رہی ہیں۔ ایک بات تو طے سمجھی جانی چاہئے کہ طاقتور حلقوں کو نواز شریف کسی صورت قبول نہیں۔ نہ ہی اُن کو مریم نواز قبول ہے۔ ن لیگ البتہ کہیں جا نہیں رہی ۔ اُس کے قلعے بدستور قائم ہیں اور پنجاب کا آپ سروے کرلیں جہاں اُس کے لوگ تھے وہیں موجود ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ثابت ہوتی تو بات اور تھی لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کامیابی کا طعنہ پی ٹی آئی حکومت پہ نہیں لگایاجاسکتا اور اُس کی کارگزاریوں کی وجہ سے ن لیگ نہ صرف قائم ہے بلکہ اُس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔

وقت آنے پہ انتخابات کا انعقاد لازمی ہو گا۔ ا س سے کوئی چھٹکارا نہیں۔یہ کوئی پیش گوئی نہیں ‘جوحالات جا رہے ہیں اُن سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ وہ ہونا ہے جو تاریخ کے اوراق میں یاد رکھاجائے گا۔جس کا مطلب ہے کہ ووٹ اپنی اپنی جگہ ہی پڑیں گے۔ یعنی جو حلقے ن لیگ کے ہیں وہ اُسی کے رہیں گے ۔ اس صورتحال میں تبدیلی پی ٹی آئی لا سکتی تھی لیکن جیسا کہ اب واضح ہے پی ٹی آئی ایک مذاق کی شکل اختیار کررہی ہے۔

ن لیگ کے ہاتھ اکثریت آتی ہے یا نہیں لیکن سب سے بڑی پارٹی وہ ضرور ہوگی ۔ اس کیلئے اُسے وزیراعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ ن لیگ کے مستقبل کی ضمانت وہ خود مہیا نہیں کررہی بلکہ یہ ضمانت عمران خان دے رہے ہیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ن لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوئی تو قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی؟ لندن سے نعرے نوازشریف لگا رہے ہوں گے لیکن نواز شریف کا عَلم اُن کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہوگا بلکہ اُسے چھوٹے بھائی صاحب تھام رہے ہوں گے۔ اس صورتحال کو دیکھتے مریم نواز دانت توپیس سکتی ہیں لیکن اطمینان کے نقوش حمزہ شہباز اور ماہر معاشیات سلمان شہباز کے چہروں پہ گہرے ہوں گے۔

جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اُس کے کسی زیرزمین کمرے میں مستقبل کا ایسا نقشہ کھینچا نہیں جا رہا ۔ لیکن حالات کچھ بن ایسے ہی رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اتنی لائق ثابت ہوگی یہ کون کہہ سکتا تھا۔ اُس کے لانے والوں نے بھی ایسا نہ سوچا ہوگا لیکن ہوا ایسا ہی ہے۔ اوروں نے کیا حیران ہونا تھا پی ٹی آئی کے اپنے حامی پریشانیوں کی وادیوں میں ڈوبے جا رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے بس میں ہوتا تو ن لیگ ختم ہو جاتی لیکن ہم ممکنات کی دنیا میں رہ رہے ہیں ۔ طاقتور حلقے حساب کتاب میں تھوڑا بہت فرق تو لاسکتے ہیں لیکن ریاضی کے اصولوں کو نئے سرے سے ترتیب نہیں دے سکتے۔ اپنے وقت کے شاہسواروں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ختم کر دیا لیکن اُن کا ورثہ ختم نہ کرسکے اور وقت آنے پہ انہیں بینظیر بھٹو کو قبول کرنا پڑا۔آج کے مقتدر حلقوں نے ملک کے سیاسی منظرنامے سے نواز شریف کو ہٹاتو دیا لیکن نوازشریف کی پارٹی کوختم نہ کرسکے ۔عمران خان ایک وقفہ ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ جب ان کی مدتِ حکومت ختم ہونے کو آئے گی تو امکان غالب ہے کہ پی ٹی آئی کے پرزے ڈھونڈنا مشکل ہو جائیں گے۔اور پاکستانی سیاست اپنے پرانے تسلسل پہ پھر آجائے گی۔

تسلسل وہی ہوا بھی لیکن چہرے بدلے ہوں گے۔ نواز شریف ن لیگ کے رہبرو مرشد تو رہیں گے ۔ نعرے بھی اُن کے لگیں گے لیکن اقتدار کے لیور دیگر ہاتھوں میں ہوں گے۔جانشینیٔ پنجاب بھی وہیں رہے گی جہاں اب ہے۔ مریم نواز کی عزت و تکریم میں فرق نہ آئے گا لیکن کہاں عزت و تکریم اور کہاں اقتدار کی حقیقت۔ یہ صورتحال طاقتور حلقوں کیلئے بخوبی قابل قبول ہوگی۔اُن کی لڑائی ن لیگ سے نہیں۔ ن لیگ تو اُن کی اپنی جماعت ہوا کرتی تھی۔ن لیگ کے نظریات وہی ہیں جو یہاں کے مقتدر حلقوں کے ہیں ۔ مخاصمت ہے تو نوازشریف کی ذات سے اور وہ بھی اس لئے کہ اپنے تمام سیاسی تجربے کے باوجود نوازشریف اپنی اِس روِش پہ قابو نہیں پاسکے کہ تیر کہیں اور اُڑا جا رہا ہے تو اُسے پکڑنا ضرور ہے۔بم سڑک کے کنارے پہ ہے لیکن اُسے لات مارنے کی کوشش ضرورکرنی ہے۔اس کے برعکس شہباز شریف احتیاط کے مجسمہ ہیں۔اُڑتے ہوئے تیروں کو انہوں نے پکڑنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔اور طاقتور حلقوں سے میل جول کیسی رکھنی ہے ‘ گفتگو کا انداز کیا ہونا چاہئے‘ اس کا انہیں ایک لمبا تجربہ ہے۔اپنے بچھڑے ہوئے ساتھی نثار علی خان کے ساتھ انہوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی کن کن سڑکوں کا جائزہ نہیں لیا۔

مزید مزے کی بات یہ ہے کہ اب سے لے کر آئندہ انتخابات تک شہباز شریف کو کچھ زیادہ کرنا بھی نہیں۔پارٹی قائم ہے‘ اسے بس اپنی جگہ پہ رکھنا ہے۔ اپنی ہی پارٹی کی اہم شخصیات سے رابطے استوار رکھنے ہیں۔ایسی میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔شہباز شریف کو نہ کوئی جلسے کرنے ہیں نہ جلوس نکالنے ہیں ۔ یہ کام مریم نواز بہترانداز سے کر سکتی ہیں۔اگلے انتخابات میں اُن کی یہی ذمہ داری ہو گی۔ شہباز شریف کو بس اپنے آستانے پہ بیٹھنا ہے اور پنجاب کی باشعور شخصیات آستانے پہ حاضری دینے کیلئے بیتاب رہیں گی۔

مقدر کے کھیل ایسی ہی ہوتے ہیں۔ساری عمر شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے سائے میں رہے۔جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ایک آدھ موقع ایسا آیا جب اپنے بڑے بھائی سے ذرا مختلف راستہ اختیار کرنے کا خیال اُن کے دل میں اُٹھا۔لیکن وہ ایک وقتی لہر تھی اور پھر حالات ایسے بنے کہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ سے سب کچھ نکل گیا۔ اب کی بار جو کچھ ہو رہا ہے اُس میں شہباز شریف کا کچھ زیادہ کرنا نہیں ہے۔ حالات اُن کے موافق خود سے ہوتے جا رہے ہیں ۔ اُنہوں نے اپنے بڑے بھائی کو سیاسی میدان سے نہیں نکالا ۔ انہوں نے اپنی بھتیجی کو قید کی سزا نہیں دلوائی۔ اور اُن کا کرنا نہیں کہ عمران خان کی حکومت اتنی لیاقت اور قابلیت کے جوہر دکھا رہی ہے ۔ایک اور بات سوچنے کی ہے۔ شہباز شریف حدیبیہ کیس میں پھنس سکتے تھے لیکن جسٹس فائز عیسیٰ کی مہربانی کہ اُس سے وہ صاف بچ نکلے۔اور جب اگلے انتخابات کا میدان سجے گا تو چیف جسٹس آف پاکستان کون ہوں گے؟شاید ‘ اگر تسلسل ایسا ہی رہا ‘ تو جسٹس فائز عیسیٰ ۔

ایک اور نقطہ بھی قابلِ غور ہے۔ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ نوازشریف کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ دل میں کینہ بہت رکھتے ہیں۔ شہباز شریف میں اُس حد تک یہ بات نہیں۔اس بنا پہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ نثار علی خان کی دوریاں بھی ختم ہوجائیں گی اوررات کے اندھیروں میں راولپنڈی کی مخصوص سڑکوں کا طواف وہ شہبازشریف کے ساتھ پھر کررہے ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے