زبان اور ادب کیسے ساتھ چل سکتے ہیں؟

پاکستان میں سکول اور کالج کی سطح پر انگریزی کے مضمون میں طلبا کو دراصل ادب (Literature) پڑھایا جاتا ہے جس میں مختصر کہانیاں، نظمیں، مضامین، ڈرامے اور ناول شامل ہوتے ہیں۔

ماہرین لسانیات کا ایک گروہ اس طرزِ عمل پر تنقید کرتا ہے۔ اس گروہ کے خیال میں ادب کا پڑھانا ایک تعیش (Luxury) ہے کیونکہ زیادہ تر پاکستانی طلبا انگریزی زبان کی ان بنیادی مہارتوں سے آگاہ نہیں ہوتے جو ادب کو سمجھنے اور اس کی ستائش کے لیے ضروری ہیں۔ اس اعتراض پر بات کرنے سے پیشتر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان میں طلبا انگریزی زبان کی تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں؟ سکول کی سطح سے آگے بڑھ کر دیکھیں تو طلبا دو بنیادی وجوہات کی بنا پر انگریزی پڑھتے ہیں۔ یہ وجوہات ہیں: مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمت کا حصول۔ ان دونوں مقاصد کے لیے طلبا کو انگریزی کی بنیادی مہارتیں‘ جیسے سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا سیکھنا ہوتی ہیں تاکہ وہ زبان کا موثر انداز میں استعمال کر سکیں۔ پاکستان میں کورس تشکیل دینے والے زیادہ تر افراد کا اپنا پس منظر انگریزی ادب کا ہوتا ہے۔ یوں ادب سے ان کا لگائو ان کی مرتب کردہ درسی کتب میں جھلک رہا ہوتا ہے۔ پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک میں درسی کتب میں ادبی شہ پاروں (Classics) اور اعلیٰ درجے (High Caliber) کے ادب پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

تعلیمی اداروں کی درسی کتب میں ایسی انگریزی شاعری کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں اکثر الفاظ متروک اور طلبا کی سمجھ سے بالا ہوتے ہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان ادبی شہ پاروں سے لطف اندوز ہونے اور انہیں داد دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ انگریزی کتب میں منتخب ادبی تخلیقات سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو ہمارے اکثر اساتذہ کا پڑھانے کا طریقہ طلبا میں انگریزی پڑھنے کا جذبہ ماند کر دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر اساتذہ زبان و ادب پڑھانے کی تربیت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس طرح وہ خود جس طریقے سے پڑھے ہوتے ہیں اسی طریقے سے اپنے طلبا کو پڑھاتے ہیں جسے ہم گرامر ٹرانسلیشن کا طریقہ (Grammar Translation Method) کہتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں انگریزی تدریس کا مطلب استاد کا ایک یک طرفہ طویل خطبہ ہوتا ہے۔ استاد کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی کتاب کھول کر مشکل الفاظ کے مطالب بتاتا ہے اور انگریزی کی ہر سطر پڑھ کر اس کا مادری زبان میں ترجمہ کر تا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران طلبا استاد کی تقریر سننے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے ہوتے۔ امتحان پاس کرنے کے لئے وہ امدادی کتب (Guide Books) کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کتب میں شامل چند طے شدہ سوالات بار بار امتحان میں آتے رہتے ہیں۔ طلبہ امتحان پاس کرنے کیلئے مختصر راستہ اختیار کرتے ہوئے اور درسی کتب کو پڑھنے کے تکلف میں پڑے بغیر امدادی کتب سے تیار شدہ سوالات رٹ لیتے ہیں۔ ان امدادی کتب میں طلبہ کو تیار شدہ سمریاں اور مختصر کہانیوں، نظموں، مضامین، ڈراموں کے جوابات مل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہے کہ ہمارا امتحانی نظام رٹے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور طلبہ سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ یاد کئے ہوئے مواد کو جوابی پرچے پر منتقل کر دیا جائے۔

تدریسِ انگریزی میں ادب (Literature) کی مخالفت کرنے والوں کا مفروضہ یہ ہے کہ زبان سیکھنے کیلئے ادب کی ضرورت ہی نہیں ہے لہٰذا درسی کتب میں کسی بھی طرح کا ادب شامل نہیںکیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے مرکزی دھارے (Main Stream) کے سکولوں اور کالجوں میں انگریزی کے نصاب میں ادب پڑھانے پر بہت زور دیا جاتا ہے اور غیر ادبی کتب پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ ایسی درسی کتب کے مطالعے سے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی زبان نہیں سیکھی جا سکتی‘ لیکن ادب کو مکمل طور سلیبس سے نکال دینا بھی درست نہیں ہے۔ یہاں کچھ اہم سوالات کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ کیا ہم ادب کو زبان سیکھنے کے مقصد کیلئے استعمال نہیں کر سکتے؟ ہم موجودہ کتب کو بہتر تعلیمی نتائج کیلئے کیسے استعمال میں لا سکتے ہیں؟ ہمیں کمرہ جماعت میں تدریس کیلئے کن کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم زبان اور ادب کو ساتھ ساتھ لے کر چلیں۔ ادب کو زبان سیکھنے کے لیے ایک دل چسپ انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں‘ جہاں انگریزی لوگوں کی ابتدائی زبان (First Language) نہیں ہے‘ ادب کی تدریس طلبہ کی زبان دانی کی سطح کے مطابق کی جانی چاہئے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ادبی شہ پاروں کے بجائے ہم عصر ادب کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ ادبی کتب کی درجہ بندی کر کے طلبہ کی زبان دانی کی نشوونما کی سطح کے مطابق مخصوص سطح پر پڑھائی جائیں۔

تحریک (Motivation) کو سیکھنے کے عمل میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نصاب میں ادب کی موجودگی طلبا کی دل چسپی برقرار رکھنے کے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں طلبا کو کمرۂ جماعت میں انگریزی زبان سیکھنے کے لیے سننے اور بولنے (Listening and Speaking) کے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں‘اس لئے یہاں مطالعہ کتب (Reading) کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ کتابوں کا مطالعہ طلبا کو متعلقہ زبان سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ مطالعے کے اس سارے عمل میں ادب دل چسپی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ استاد بھی اپنے مضمون میں دل چسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ استاد طلبا کو مشکل الفاظ کے معانی بتانے والی ایک بڑی سی لغت (Dictionary) بن جائے اسے چاہیے کہ کمرۂ جماعت کو زندہ و متحرک (Vibrant)بنائے تا کہ طلبا کے لیے اس مضمون میں دلچسپی پیدا ہو۔ زیادہ تر اساتذہ مصنفین کی سوانحات اور ادبی تحاریک پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس طرح بجائے اس کے کہ ادب کا مطالعہ کروائیں وہ دراصل ادب سے متعلق پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اساتذہ کا مرکزِ نگاہ دوسرے درجے کی معلومات دینے کے بجائے اصل درسی کتاب کی تدریس ہونا چاہیے۔ زبان پڑھانے والے استاد کو چاہیے کہ اپنے طلبا کو زیادہ سے زیادہ کتب کا مطالعہ کرنے کی طرف راغب کرے۔ بعض اوقات کچھ طلبا کسی کتاب کے مشکل انداز تحریر سے اسے نا پسند کرنے لگتے ہیں۔ ایسے مواقع پر استاد ان کی مناسب رہنمائی سے اس نا پسندیدگی کو پسندیدگی میں تبدیل کر سکتا ہے۔

استاد ایک ادبی کتاب کو بہ آسانی زبان کی تدریس کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ادبی کتب کی بنیاد پر کئی ایک مشقیں ترتیب دے سکتا ہے جس میں طلبا کو نا مکمل پیراگراف کو مکمل کروانا، پیراگراف کے متعلق اندازہ لگوانا کہ کہاں سے لیا گیا ہے اور کیا پیغام دے رہا ہے وغیرہ کی مشق کروائی جا سکتی ہے۔ طلبا کو لکھنے میں رہنمائی دے کر بھی مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ طلبہ کو نظم کے چند اشعار دے کر انہیں لکھنے کی سرگرمی بھی دی جا سکتی ہے۔ اس طرح یہ مشقیں طلبا کو زبان کی بناوٹ سیکھنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں‘ الغرض ہمیں ایسا متوازن نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں زبان و ادب‘ دونوں کا امتزاج ہو۔ میں کچھ ایسے طریقے سامنے لایا ہوں جس میں ہم ادبی کتب کو شاملِ نصاب کر کے زبان سکھا سکتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ استاد تھوڑی سی زائد محنت اور تخلیقی سوچ (Creativity) کے ساتھ انگریزی ادب کی تدریس کو دلچسپ اور با معنی بنا سکتا ہے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے