مجھ سے کسی نے پوچھا کہ تم حامد میر کا اتنا احترام کیوں کرتے ہو؟۔ باقی اینکرز کے حوالہ سے تمہاری رائے مختلف کیوں ہے؟۔ میں نے کہا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔ مثلاً جس حامد میر کو میں جانتا ہوں وہ ایک مختلف انسان ہے۔ میں انہیں اینکر کی طرح نہیں بلکہ ایک ساتھی صحافی کی طرح دیکھتا ہوں۔۔ جاوید چوہدری، نسیم زہرہ، کاشف عباسی ، طلعت حسین، نصرت جاوید اور حامد میر کی طرح کم ہی اینکرز ہیں جو صحافی ہیں اور صحافتی اقدار کا خیال رکھتے ہیں۔ میں اگر خلاف ہوں تو ان پیرا ٹروپرز کے خلاف ہوں جو کبھی وکیل، اداکار، ڈاکٹر، مولوی، فیشن ڈایزائنر یا دندان ساز تھے اور اپنے اپنے شعبوں میں ناکامی کے بعد اپنی زبان کی لمبائی اور اس پر لگے مکھن کے باعث اینکر بنے اور خود کو صحافی بھی سمجھنا شروع کر دیا لیکن باقی دوستوں سے معذرت کے ساتھ کہ جو احترام حامد میر کا ہے وہ ان باقی اینکرز و صحافی حضرات کا نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
کئی احباب شاید نہیں جانتے کہ نوے کی دہائی میں جب پہلی مرتبہ حامد میر سے ملاقات ہوئی تو وہ روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے ایڈیٹر بن کر آئے تھے مگر پہلی ملاقات نے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ ایک ضدی، خود سر اور گھمنڈی قسم کا ایڈیٹر ہے کیونکہ وہ سلام کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ شاہد نقوی، عبد الحمید تبسم اور جاوید چوہدری جیسے دوستوں سے ملنے کے لیے میرا روزنامہ پاکستان کے دفتر بہت آنا جانا ہوتا تھا لیکن میں نے میر صاحب کو کبھی بھی اچھے طریقے سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ حامد میر اپنی پوری ٹیم کے ساتھ روزنامہ اوصاف چلے گئے۔۔ میرا انٹرویو بھی ہوا اور مجھے حامد میر نے کہا کہ میں تمہیں رپورٹنگ میں نہیں رکھ رہا، میگزین سیکشن میں رکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد بھی ناصر اسلم راجہ کے ایک انٹرویو اور سعید قاضی کی وجہ سے میرا میر صاحب کے حوالہ سے پہلا تاثر قائم رہا۔ تاہم ایک مرتبہ سعید قاضی کے ساتھ بلا وجہ جرمانہ کرنے پر جھگڑا ہوا جس پر میں ناراض ہو کے دفتر سے چلا گیا۔ تین دن بعد ایڈیٹر حامد میر نے مجھے خود فون کر کے بلایا، میری شکایات کو سنا، دفتر سے جرمانہ کا سلسلہ ختم کرا دیا، سعید قاضی کو معذرت کرنا پڑی۔ اس کے بعد میرا حامد میر کے حوالہ سے تاثر مختلف ہوتا گیا۔ جب میں اپنے سپورٹس ایڈیشن کی ڈمی دکھاتا تو وہ زیر لب مسکراتے ہوئے کہتے ٹھیک ہے۔ اچھا ہے۔ کچھ عرصہ بعد میں برطانیہ چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا تو حامد میر پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا میں آ چکے تھے۔
وہ جیو نیوز کے بیورو چیف تھے اور ان کا پروگرام کیپٹل ٹاک بہت مشہور تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا عہدہ بھی بڑھتا گیا اور نام بھی۔۔ پھر جب ۲۰۰۷ میں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجینسی پلس نافذ کی اور ہماری پی ایف یو جے نے اس کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا تو حامد میر اور طلعت حسین دونوں ہی اس حوالہ سے بہت فعال تھے۔ ہمارے اس وقت کے پی ایف یو جے صدر ہما علی احتجاج کے مخالفت تھے لیکن آر آئی یو جے اور یہاں کے سینئر صحافیوں کے اصرار پر پی ایف یو جے کو مزاحمت کی یادگار تحریک شروع کرنا پڑی۔ اس میں مظہر عباس، حامد میر، طلعت حسین ، افضل خان صاحب سمیت بہت سے سینئےر حضرات کا اہم کردار تھا۔ اس تحریک میں حامد میر کو تنظیم کے ایک کارکن کے طور پر دیکھا جنہوں نے ہمیشہ ڈسپلن کے ساتھ تنظیم کے فیصلوں کو مانا اپنے بڑے صحافی ہونے کے باعث فیصلے نہیں ٹھونسے، فٹ پاتھ پر اپنے پروگرام کیے۔
میں نیشنل پریس کلب کا سیکرٹری تھا، فاروق فیصل خان صدر تھے۔ فیصلہ ہوا کہ صحافیوں کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا۔ بہت سے سینئر صحافیوں کو مدعو کیا گیا۔ وہاں کسی نے ایک ماہ کی تنخواہ کا اعلان کیا تو کسی نے چند ہزار دینے کا اعلان کیا، ہمارے ایک سابق صدر اور سینئر اینکر پرسن ایک ماہ کی تنخواہ کا اعلان بھی نہ کر سکے اور بہت دباﺅ ڈالنے پر چند ہزار دینے کا اعلان کیا۔ ایسے میں ہم سب چونک اٹھے جب حامد میر نے میڈیا ٹاﺅن اسلام آباد میں ملنے والا اپنا پلاٹ فنڈ کو دینے کا اعلان کر دیا۔ اس پلاٹ کی اس وقت بھی قیمت پچاس لاکھ سے زیادہ تھی، بعد ازاں جب فروخت ہوا تو کروڑ روپے کے قریب اس کی مالیت تھی۔ اللہ نے پیسہ بہت سے صحافیوں کو دیا ہے لیکن اسے اپنے مستحق ساتھیوں کو دینے کا ظرف نہیں ہے۔ ایسے بھی دوست ہیں جو عہدہ ملنے پر سلام دعا بھول جاتے ہیں لیکن حامد میر۔۔ جسے لوگ جانے کیا کیا کہتے ہیں اس نے اپنا پلاٹ غریب صحافیوں کے لیے وقف کر دیا۔
میرے لیے احترام کی ایک وجہ یہ بھی کافی تھی لیکن ہر ملاقات میں وہ اپنے حوالہ سے میرے پہلے تاثر کی نفی کرتے گئے، ہر ملاقات میں احترام بڑھتا رہا۔ کبھی کسی میڈیا ہاﺅس پر حملہ ہوا، وہاں ایک ٹیکنیشن، ڈرائیور مارا گیا تو اس کے لیے بھی احتجاجی مظاہرہ میں سب سے پہلے حامد میر پہنچے۔ ہر احتجاجی مظاہرہ میں سب سے پہلے پہنچنے والا یہ حامد میر سیکورٹی مسائل کا شکار بھی تھا مگر کبھی بھی اس کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ فرنٹ لائن میں کھڑے ہوئے، تقریر بھی وہ کہتے تھے کہ آپ لوگ کریں۔ یہ صرف میڈیا ہاﺅس کے لیے، کسی اینکرز یا بڑے صحافیوں کے لیے ہونے والے مظاہرہ میں آنے والے صحافی نہیں رہے۔ اس لیے عزت و احترام بھی بڑھتا گیا۔ایک اہم بات یہ کہ جو کام ہم نے پریس کلب سے شروع کرنا تھا یا کسی صحافتی تنظیم کی ذمہ داری تھی وہ انڈوومنٹ فنڈ کا قیام تھا۔ وہ فنڈ اپنا پلاٹ خود فروخت کر کے حامد میر نے خود قائم کر دیا۔ دوستوںحامد میر صاحب نے میرے بتانے پر بہت سے دوستوں کی امداد خاموشی سے کی اور مجھے کہا کہ یہ بتائیے گا بھی نہیں کہ یہ میں نے کیا ہے۔ کسی آدمی کے عظیم ہونے کی بھی یہ نشانی ہے وہ دیتا ہے مگر احسان نہیں جتاتا۔
جب حامد میر کو کراچی میں گولیاں ماری گئیں تو میں نیشنل پریس کلب کا صدر تھا، ملک گیر سطح پر احتجاج ہو رہے تھے، ہم نے ایک ہفتہ منایا جس کا نام میں نے تجویز کیا ہم حامد میر ہیں۔ یہ نام تجویز کرنے کے بعد ایک رات مجھ سے ایک ترانہ بھی سرزد ہو گیا۔ "ہم حامد میر ہیں”، اس کا بہت عرصہ خمیازہ بھی بھگتا اور اب بھی بھگت رہا ہوں لیکن میں پھر بھی اختلاف رکھنے والوں سے معذرت کے ساتھ کہتا رہوں گا ہم حامد میر ہیں، ہم حامد میر ہیں۔ جو ظلم سے ڈرتے نہیں، لوگ وہ مرتے نہیں، عزم و ہمت کی تصویر ہیں، ہم حامد میر ہیں، ہم حامد میر ہیں۔دشمن جس سے گھبرائے، موت جس سے شرمائے، ہم سچ کی وہ شمشیر ہیں، ہم حامد میر ہیں، ہم حامد میر ہیں۔ سچ کی شمع جلائیں گے، ہر ظلم سے ٹکرائیں گے، اقبال کی تعبیر ہیں، ہم حامد میر ہیں، ہم حامد میر ہیں۔