ہم سب بابو بننا چاہتے ہیں

بیوروکریسی کے زوال پر میرے پچھلے کالم پر بہت بحث ہوئی۔ بہت سے خوش تو کئی ناخوش۔ ایک اہم سوال جو اُٹھا یہ تھا:سب کیوں بیوروکریٹ بننا چاہتے ہیں یا اپنے بچوں کو کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر یہ جذبہ ہے کہ وہ ملک و قوم کو سرو کریں گے‘ غریب اور کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ کیاان سب میں پبلک سروس کا جذبہ ہے ‘ اس لیے سی ایس ایس کرنا چاہتے ہیں؟کیاوہ اس سسٹم سے جڑے رعب و دبدبے‘ اختیا رات اور پروٹوکول کیلئے نہیں صرف اور صرف عوام کے خادم کے طور پر سروس جوائن کرنا چاہتے ہیں؟ وہ ظالم کا ہاتھ روکنااور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ وہ سٹیٹس کو کی قوتوں کے آگے جھکنے کے بجائے ان کی مزاحمت کرنا چاہتے ہیں تاکہ ریاست اور عوام کی خدمت کرسکیں ؟

ایمانداری سے بتائیں ہم میں سے کتنے لوگ اس سروس کو خدمت سمجھ کر جوائن کرتے ہیں؟ مجھے میرے جاننے والوں میں ایک بھی ایسا نہیں ملا جو سی ایس ایس کی تیاری کررہا تھا اور اس کے ذہن میں ہو کہ وہ ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔فرمان ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا لیکن پھر بھی ڈاکٹر پورے پانچ سال انسانی جان بچانے کی میڈیکل ایجوکیشن لینے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دے کر افسر بننا چاہتا ہے۔ ایک انجینئر شاید انجینئر کے طور پر ملک کی بہتر خدمت کرسکتا ہو لیکن چار سال انجینئر نگ یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد وہ بھی سی ایس ایس کے پرچے دے رہا ہوتا ہے۔ تو کیا ڈاکٹری اور انجینئرنگ میں انسانی خدمت نہیں ہوتی؟ یہ بات ہم تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن سی ایس ایس کرنے کے پیچھے بے پناہ اختیارات‘ طاقت‘ رعب‘ دولت‘ دبدبہ‘ بڑی بڑی گاڑیاں‘ پروٹوکول کا جذبہ ہوتا ہے۔

بیوروکریسی میں کبھی بڑے نامور لوگ ہوتے تھے جن کی عزت تھی‘ کردار تھا‘ جو وزیراعظم‘وزیراعلیٰ اور وزراکے غلط احکامات ماننے سے انکاری ہوجاتے تھے۔ کبھی ایسی کلاس واقعی ملک میں موجود تھی جس کے نزدیک کریکٹر اور ساکھ اہم تھی پوسٹنگ نہیں‘ لیکن پھر میرے جیسے لوئرمڈل کلاس سے ایک طبقہ اُٹھا جو سی ایس ایس کرنا چاہتا تھا تاکہ اس کے خاندان کو طاقت اور دولت ملے۔ وہ ہر قیمت پر حکمرانوں کے مفادات پورے کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ میں بھی اگر سی ایس ایس کرنا چاہتا تھا تو میرے ذہن میں عوامی خدمت نہیں بلکہ وہی رعب‘ دبدبہ اور پاور تھی۔ راتوں رات آپ کی کلاس بدل جاتی ہے اور پھر اس کلاس کے نزدیک اچھا برا کچھ نہیں رہتا۔ سی ایس ایس کلاس نے اسی عوام پر رعب ڈالنا ہوتا ہے جس کے ٹیکسوں سے وہ تنخواہ اور مراعات لے رہی ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے لوگوں کو میری بات بری لگے لیکن ان گزرے برسوں میں بیروزگاروں سے ہمدردی کچھ کم ہوگئی ہے۔ یہ بیروزگار جب نوکری ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں تو ان کا رویہ‘ اپروچ اور سوچ کچھ اور ہوتی ہے اور جس دن نوکری مل جاتی ہے اور وہ کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو اسی عوام کو ذلیل کرتے ہیں ‘اسی کو لوٹتے ہیں جس کا وہ چند روز پہلے تک حصہ تھے۔

جب تک وہ عام لوگ تھے تو ان میں انسانی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ‘ جونہی کرسی ملی ساتھ ہی وہ بابو بن گئے اور عوام ان کے نزدیک اچھوت قرار پاگئے۔ جنید مہر بیوروکریٹ ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ جب وہ مظفرگڑھ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے تو ڈی سی نے فیصلہ کیا کہ جو دو درجن پٹواری بھرتی کرنے ہیں وہ سب میرٹ پر ہوں گے۔ جنید مہر کو ان کے والد نے کسی کیلئے سفارش کی تو انہوں نے والد سے کہا کہ اگر ایک بندہ بھی سفارش پر ہوا تو وہ آپ کا ہوگا۔ جنید مہر نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد تک کو انکار کر دیا اور سب پٹواری میرٹ پر بھرتی کیے۔میں نے کہا: جنید سائیں آپ کتنا عرصہ اس کے بعد وہاں اے سی رہے؟ بولے: سات آٹھ ماہ۔میں نے پوچھا: جو دو درجن پٹواری آپ نے میرٹ پر بھرتی کیے ان میں سے کتنوں کے خلاف رشوت لینے کی شکایات موصول ہوئیں؟ جنید مہر نے قہقہہ لگایا اور بولے: ایمانداری سے پوچھتے ہو تو چوبیس میں سے اٹھارہ کے خلاف شکایتیں آئی تھیں کہ وہ رشوت لے کر کام کرتے تھے اور ان نوجوانوں کا ریٹ بھی پہلے سے زیادہ تھا۔ پہلے والے پٹواری دو سو روپے لیتے تھے تو یہ میرٹ والے نوجوان پانچ سو روپے لے رہے تھے۔میں نے کہا: جنید صاحب ایک بات کہوں؟ اگر آپ اپنے والد کے کہنے پر سفارشی پٹواری بھرتی کر لیتے تو یقین کرو اس لڑکے کا شمار ان چھ پٹواریوں میں ہوتا جن کے خلاف شکایتیں نہیں آنی تھیں‘ وہ سفارشی نوجوان پھر بھی کچھ شرم کر لیتا۔اگر ان نوجوانوں نے میرٹ پر لگ کر کرپشن کرنی ہے‘ رشوت لینی ہے‘ مال بنانا ہے تو اپنے دیہاتی باپ کو انکار اور اس کا دل توڑنے کا کیا فائدہ ہوا؟میں نے کہا: آپ نے پٹواری میرٹ پر لگا دیے جبکہ آج کل ڈپٹی کمشنر پیسے دے کر لگ رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سی ایس ایس والے سخت محنت ‘ تیاری اور پراسیس کے بعد پورے میرٹ پر افسر لگتے ہیں‘ پورے عمل میں کہیں کرپشن نہیں ہوتی۔تو کیا میرٹ پر آنے والے افسران کرپٹ نہیں نکلے؟ ان کی جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آئیں تو ہوش اُڑ جائیں۔ اکثر افسران کے بچوں کی نیشنلٹی کینیڈا‘ امریکہ‘ نیوزی لینڈ اور یورپ کی ہے۔ پولیس افسران نے کینیڈا کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا ہے۔ یہ کہاں سے پیسہ لا کر بیرون ملکوں بچوں کو سیٹل کررہے ہیں؟ یہ سب اسی لوئر مڈل کلاس سے اُٹھے اور ان نوکریوں میں آئے تھے تاکہ اپنی حالت بدل سکیں۔ ان کے نزدیک یہ عہدے عوام یا ریاست کی خدمت کرنے کیلئے نہیں تھے بلکہ اپنے اور خاندان کی قسمت بدلنے کا موقع تھا۔ اگر چند اچھے سی ایس ایس افسران اس گند میں ایڈجسٹ نہ ہوسکے تو وہ عالمی اداروں میں ڈیپوٹیشن پر چلے گئے تاکہ ایمانداری سے گھر چلا سکیں۔حالت یہ ہوچکی ہے کہ اب ایک ریٹا ئرڈ آئی جی پنجاب نے خط لکھا ہے کہ اسے باورچی بھی سرکاری خزانے سے دیا جائے جو تنخواہ تو عوام کے ٹیکسوں سے لے لیکن کھانا اس افسر اور اس کے خاندان کا پکائے۔وہ آئی جی ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنی جیب سے پندرہ بیس ہزار کا کک رکھنے کو تیار نہیں کیونکہ ساری عمر پولیس افسر کے طور پر ان صاحب نے ایسی زندگی گزاری ہوگی جس میں پانی کی بوتل بھی دوسرے خرید کر دیتے ہوں گے۔

یاد آیا سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا جب 2013 ء میں سپیکر کے عہدے سے فارغ ہونے لگیں تو ایک ہفتہ پہلے فنانس کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپنے لئے تاحیات مراعات کا پیکیج خود ہی منظور کر دیا‘ تامرگ مفت سرکاری ملازم سمیت۔ امریکہ علاج کیلئے چالیس لاکھ روپے بھی اسمبلی سیکرٹریٹ سے ادا کرائے اور جاتے جاتے 84 کروڑ کے بینک قرضے بھی معاف کرالئے جبکہ آج خبر چھپی ہوئی ہے کہ فن لینڈ کی وزیراعظم کو سرکاری خرچے پر ناشتہ کرنے پر انکوائری کا سامنا ہے اور عوام نے اس کا حشر کر دیا ہے۔ چوہدری نثار نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ ان سے پہلے وزیرداخلہ کراچی سے وزارت داخلہ کے سرکاری ہیلی کاپٹر پر نہاری منگواتے تھے اور شریف خاندان مری میں دیگیں ہیلی کاپٹر پر منگواتا تھا جبکہ عمران خان صاحب وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالہ ہیلی کاپٹر پر آتے جاتے رہے‘ جنہوں نے ڈچ وزیراعظم کی طرح سائیکل پر دفتر آنا تھا۔اس لیے ڈچ یا فن لینڈ کا وزیراعظم بننے میں وہ کشش نہیں نہ ہی لمبے کھابے ہیں جو مزے پاکستان میں وزیراعظم یا وزیر بن کر ہیں۔ اسی طرح جو مزہ پاکستان میں سی ایس ایس کر کے بابو بن کر رعب دبدبہ‘ ہٹو بچو اور تگڑا مال کما کر رعایا پر حاکم بن کر زندگی گزارنے میں ہے وہ بھلا کسی اور پروفیشن میں کہاں؟ہم سب بابو بننا چاہتے ہیں لیکن جس کا دائو لگ جائے وہی سکندر باقی جلتے رہیں یا اپنی قسمت کوروتے رہیں۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے