میں ایک بار اس عذاب سے چھٹکارا چاہتی تھی

پچھلے مضمون میں حاملہ خواتین اور ان کی معالجین کے بارے میں لکھا تو اس پر رائے دینی والی چند خواتین نے کہا پوسٹ نیٹل ڈیپریشن یا زچگی کے بعد چھا جانے والی اداسی کے بارے میں بھی لکھوں۔ کچھ مہربان خواتین نے اپنے ذاتی تجربات بھی بتائے کہ کیسے انہیں اس اذیت سے تنہا گزرنا پڑا کیونکہ اس بارے میں نا انہیں کوئی آگاہی تھی، نا ان کے شوہروں یا خاندان والوں کو، اور ان کی ڈاکٹر نے بھی انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دیں۔ یہ ڈپریشن بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے گذرنے والی خواتین نے بتایا انہوں نے خود کشی کی کوشش کی یا کم از کم اپنی جان لینے کے بارے میں سوچا اور کچھ حالات میں انہوں نے اپنے نومولود بچوں کو بھی دھتکارا۔یہاں میں کچھ ایسی ہی کہانیاں آپ کو بتاوٗں گی جن کے نام اور مقام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

صائمہ نے اپنی پہلی بچی کی پیدائش کے بعد اکیلے پوسٹ نیٹل ڈپریشن کا سامنا کیا۔ ان کی عمر محض 21 برس تھی۔ ان کی والدہ بیرون ملک مقیم تھیں اور بچی کی پیدائش کے دنوں میں ہی ان کی ساس کا انتقال ہو گیا۔ وہ اپنی لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی رہیں۔ اور انہیں بتانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی نومولود بیٹی سے انسیت محسوس نہیں کر رہیں اور انہیں شدید ترین اداسی محسوس ہوتی ہے۔ان کی ڈاکٹر نے انہیں کہا یہ نارمل بات ہے اور وہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ کیونکہ جب ان کی بیٹی تین ماہ کی ہوئی تو ایک سہ پہر صائمہ نے چپ چاپ نیند کی گولیوں کی آدھی ڈبی نگل لی۔

” مجھے لگا، ہر روز خود کو زبردستی گھسیٹنا، اور زندہ رہنے کی کوشش کرنا اتنا مشکل ہے اور میری اداسی سے کسی کو فرق ہی نہیں پڑ رہا، میں ایک بار اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی تھی”

وہ کئی گھنٹے تک نیم بےہوش رہیں،بچی کے والد اور آیا کو لگا وہ تھک کر سو رہی ہیں اس لئے کسی نے انہیں جگایا نہیں۔ لیکن جب یہ نیند طویل ہو گئی تو تشویش ظاہر کی گئی۔ بحرحال اللہ کو ان کی زندگی منظور تھی، وہ بچ گیئں۔ اس کے بعد انہوں نے ماہر نفسیات سے رجوع کیا اور باقاعدہ علاج کروایا۔

دراصل زچگی ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں عورت کے جسم کا پورا نظام اتھل پتھل ہو جاتا ہے۔خاص طور پرہارمون میں بڑی تبدیلیاں رونماں ہوتیں ہیں۔ جسمانی کمزوری، مسلسل نفاس کے خون کا اخراج، پسینہ، پیشاب،پاخانہ میں تکلیف اور پھر بچوں کی قدرتی غذا یعنی دودھ کے بننے کا عمل۔ بچے کو سنبھالنے کی زمہ داری، نومولود کی ضروریات کو ترجیح دینا اور اس کے معمولات کو سمجھنے کا دباوٗ۔ زچہ کے لئے یہ سب ذہنی دباوٗ کا سبب بن جاتا ہے۔

اس کی چند اہم نشانیاں ہیں،مزاج کا چڑچڑا ہونا،بلا وجہ کی اداسی، بچے کی جانب متوجہ نا ہونا، کسی کام میں باتوں میں دل نا لگنا،بلا وجہ رونا یا رونے کی خواہش کرنا۔ اور اگر بروقت اس کا تدارک نا کیا جائے تو اپنی جان لینے کی کوشش تک نوبت آجاتی ہے۔
ہمارے خاندانی نظام میں نئی ماں کی مدد کا خاطررخواہ خیال رکھا جاتا ہے، اکثر رشتہ دار خواتین، مائیں،بہنیں، ساس، نندیں مدد کے لئے موجود ہوتی ہیں۔لیکن اس مسئلے کا ادراک نا ہونے کے برابر ہے۔ خاص طور پر پہلی بار ماں بننے والی عورتوں کو کےلئے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔

صائمہ کی رائے میں گائینی ڈاکٹرکے ساتھ ایک ماہر نفسیات بھی ہسپتال میں ضروری ہے جو اس حوالے سے مدد دے سکے۔ اور خاندان والوں خاص کر شوہر کو اس بارے میں اگاہی ہونا چاہئے۔

پوسٹ نیٹل ڈیپریشن یا بےبی بلوز، کی وجوہات قدرتی طور پر ہارمون کا عدم توازن ہے۔ عمومی طور پر یہ توازن چند ہفتوں میں بحال ہو جاتا ہے لیکن اگریہ دورانیہ طویل ہو جائے تو ماں اور بچے دونوں کی صحت، اور باہمی تعلق میں رخنہ انداز ہو سکتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں اس میں ماں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تھوڑی سی توجہ، جذباتی مدد، زمہ داریوں کو بانٹ لینے اور زچہ و بچہ کو مناسب آرام فراہم کرنے سے اس سنجیدہ مسئلے سے نکلا جا سکتا ہے۔

ماں بننے کا عمل خوبصورت ہے لیکن اس کے بعد زندگی میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ جسمانی ساخت میں تغیر آجاتا ہے، ذہنی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ معمولات زندگی کو ازسر نو ترتیب دینا پڑتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دوران حمل ان پیچیدگیوں سے بھی ماں اور باپ دونوں کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ انہیں بچے کی ذمہ داری مل بانٹ کر اٹھانے کی ترغیب دی جائے، اور ایک دوسرے کی ڈھارس بندھانے کا طریقہ بھی سیکھنا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے