اُن نم آنکھوں کی ایک کہانی

یہ تو فطرت ہے اور ایک حقیقت بھی ہے کہ ہر انسا ن کو کسی نا کسی کیساتھ اپنا ایک رشتہ جوڑنا ہی ہوتا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک اچھے رشتے کی تلاش میں ہمیشہ دونوں طرف جستجو اور تجسس ہوئی ہوتی ہے ، آج کہ دور میں ہر کسی کی یہی خواہش اور خواب ہوتا ہے کہ و ہ اپنی پسند کا ہمسفر تلاش کرے تاکہ وہ ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھیں تاکہ وہ ایک طویل پر سکون زندگی گزار سکیں۔ آج سے چند ددہائی قبل رشتے ہمیشہ خاندان کی طرف سے ارینج ہوا کرتے تھے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انسان نے خود کو مہذب سمجھا تو یہ آزادی مرد کو تو پہلے حاصل تھا مگر عورت کو بھی تھوڑی بہت یہ آزادی مل گئی کہ رشتہ طے ہونے سے پہلے انکی رضا مندی شامل کرنا ضروی ہے۔

ویسے بھی انسان کے زندگی کے خوبصورت دن ( انیمون) سے پہلے جامعات کے دن زندگی کے حسین دنوں میں شمار ہوتے ہیں ، جامع کے ہر درودیوار اور کوریڈور عمربھر یاد آتے ہیں اور انسان زندگی کے کسی بھی اسٹیج پہ یونیورسٹی اور وہاں کے دوستوں سے بیتے لمحوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ آج کے دور میں اگر کسی نے یونیورسٹی میں پڑھا نہ ہو تو وہ سمجھو پیدا نہیں ہوا ہے ۔ یہ ہمارے یونیورسٹی کے دن تھے ہم اپنی جوانی کے آب وتاب میں کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بغیر موج مستیوں میں مگن تھے ،نا گھر کا غم نا کسی مصیبت کا بس ہم ہی تھے، خود کو اس دنیا کے بادشاہ تصور کر رہے تھے، یونیورسٹی کی ابتدائی دنوں میں کوئی بھی کسی رشتے کو سنجیدہ نہیں لیتا ۔ مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہمارے ایک دوست نے اپنی دل کی بات ہم دوستوں سے شئیر کرنے لگے وہ بتا رہے تھے کہ ، یار! دوستو! اب مجھے اپنے لیے ایک ہمسفر تلاش کرنا ہوگا ، میں چاہتا ہوں کہ کچھ وقت سوچ لوں اور اپنے لیے ایک ہم خیال ڈھونڈنے نکلوں اور اس ضمن میں آپ دوست میری مدد کرسکتے ہیں۔

تو ہم نے کہا یہ اچھی بات ہے شروعات یہیں کرتے ہیں، دیکھ لو اگر کوئی کلاس میں یا یونیورسٹی میں آُپکو پسند آجائے تو بے شک ہم اس حوالے سے آپکا ساتھ دیں گے ۔۔۔ پورے جامع میں اشفاق ایک شریف اور سلجھے ہوئے طلبا سے جانا جاتا تھا ۔ اشفاق کی زندگی میں صرف چند ہی خواب تھے ،اُن میں ایک یہی تھا کہ اپنے لیے ایک ایسی ہمسفر کی تلاش کہ وہ اُنکو سمجھ سکے اور عملی زندگی میں انکے ساتھ ایک دوسرے کا سہارا بن سکے ۔ وہ اپنی اس خواب کو اپنی یونیورسٹی کے دنوں میں ہی پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے قبل اشفاق کا کسی کیساتھ ایسا کوئی تعلق ہی نہیں تھا ،وہ ہمیشہ یونیورسٹی میں اپنے مقصد کی کام کلاسز ، ٹیچرز کیساتھ گپ شپ اور کبھی کھبار یونیورسٹی لان میں سیاسی و ادبی نشستوں کا اہتمام کیا کرتا تھا ، اور وہ زیادہ تر کلاسز ختم ہونے کے بعد گھر جاتے تھے ۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اشفاق پہ یہ بوجھ آنا شروع ہوگے کہ اب تم نے اپنے لیے ایک ہمسفر کا تعین کرنا ہوگا ۔ اسی طرح یونیورسٹی کے دنوں میں اشفاق کا اپنے ایک بیچ میٹ عائشہ سے شناسائی ہوتی ہے۔وہ خود سے یہ طے کر لیتا ہے کہ عائشہ ہی وہ ہوسکتی ہے کہ انکا ہمسفر بن سکے ۔ جلدی اُن سے انکا بات چیت کا آغاز ہوجاتا ہے ، یونیورسٹی میں چند دنوں کی ملاقات سے اور کلاسزز ختم ہونے کے بعد کنٹین میں اکھٹا بیٹھ چائے پیتے تھے ، ان ملاقاتوں سے وہ ایک دوسرے کے احساسات سمجھنے لگے ،عائشہ بھی یہی تاثر دینی کی کوشش کرتی ہے کہ میں اشفاق کیساتھ خوش رہ سکتی ہوں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔

اسی اثنا میں یونیورسٹی کے تعطیلات شروع ہو گئیں، ایک دن فون پہ بات چیت کا آغاز وہی سے شروع ہوتا ہے، جہان یونیورسٹی کے لان میں آخری ملاقات سے ختم ہوئی تھی ۔ ایک دو دنوں میں فون پہ وہی سنجیدہ ماحول کا منظر ہوتا ہے۔ لگ یوں رہا تھا کہ اب بہت جلد چیزیں عملی شکل اختیار کر جاتی ہیں مگر اچانک سے عائشہ کی رویوں میں یک دم تبدیلی آنا شروع ہوگئی اور وہ خود کو قابو کیے بغیر ایک ایسے معصوم شخص پر کچھ خیال کئے بغیر برس پڑنے لگی، اُنکو شاید یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اشفاق اُنکی زندگی میں فرشتہ بن کر آیا ہے ۔ اُنکے ان رویوں سے وہ ایک ایسے رشتے کی بنیادکو کمزور کرنے کی غلط کوشش کر رہی تھی جو لہ انکے لیے بلکل درست نہیں تھی۔

بیشک تعلقات اور رشتے ہمیشہ خوش گوار نہیں ہوا کرتے ہیں، زندگی میں ایک نا ایک دن ضرور اس میں کسی غلط فہمی کی وجہ سے دراڈیں پڑ جاتی ہیں ، اسی طرح اُنکے بیچ میں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا ۔۔۔کیا اتنی جلد بازی سے کام لینا تمہاری فطرت میں شامل ہے کہ تم نے اتنی جلدی میں اپنی دل کی بڑاس اور کتھارسس نکالنے کا فیصلہ کیا؟کیا تم نے واقعی سوچ سمجھ کر ایک ایسے انسان کو سمجھنے سے پہلے عجلت سے کام لیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا ؟

جس لب و لہجے سے شعوری و لاشعوری طور پروہ اپنی دل کی بات ایک ایسے معصوم شخص کو سنا رہے تھی شاید وہ زندگی میں پہلی بار اس طرح کی ماحول دیکھ رہا تھا ،۔۔۔ ایک سادہ لو انسان کے لیے اسطرح کی ماحول میں اپنا دفاع کرنا اس لیے مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ کہ وہ جو کچھ محسوس کر رہا تھا اور آگے والے سے سن رہا تھا بغیر کوئی مبالغہ آرائی کے سادگی سے اپنے موقف کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، مگر وہ تھی کہ خود کو اسوقت پورے سماج سے برتر ظاہر کرنے کی دلیلیں دے رہی تھی۔ شاید وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ میں کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتی۔۔۔ مگر جہاں تک ہم نے کتابوں سے ، معاشرے سے دوستوں سے جو کچھ سیکھا وہ بلکل مختلف تھی، انسان کو اپنے اندر بُردباری ، رواداری، انکساری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، برداشت کا فقدان اور عدم روادری کی وجہ سے ہم کتنے خوبصورت رشتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

وہ بار بار اپنی غیر مستقل مزاجی کی فخر یہ انداز سے مثالیں دے رہی تھی، وہ وقتا فوقتا خود کو بہت شاطر اور قابل ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش تو کر رہی تھی، مگر انکے رویوں اور انداز بیاں سے کوئی میٹرک فیل ہی جج کرسکتا تھا کہ وہ اصل زندگی میں کیا ہے اور سامنے والے کو کیا تاثر دینا چاہتی ہے۔ ۔۔اسطرح کے انسانی رویوں سے بس رشتے ہی کمزور ہوجاتے ہیں ۔ شاید وہ سماجی رویوں سے سبق سیکھ چکی تھی اور یہی سمجھ رہی تھی کہ کوئی کسی کا ہمدرد نہیں ہوتا، سب باتوں کی حد تک وقت گزاری کے لیے تعلقات بنانا چاہتے ہیں، اُنکو کیا معلوم کہ پانچ فُٹ چھ انچ کا انسان دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر ان تمام سماجی رویوں کے برعکس ایسے انسان اُنگلیوں میں گنے جاتے ہیں جو بغیر کسی فائدے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی کی کچھ مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ، یہی کچھ اشفاق اور عائشہ کیساتھ ہوا تھا ۔

عائشہ اپنی انا اور دولت کی گمنڈ کی وجہ سے اشفاق جیسے نیک نیت اور انسان دوست کو سمجھنے سے قاصر تھی ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہیکہ دولت اور شہرت کی خوشی دنوں کیساتھ گنی جاتی ہے، مگر ایک دوسرے کو سمجھنے کے بعد کا رشتہ ایک دائمی رشتہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کا یقین اور بھروسہ موجود ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ بھروسہ اتنی جلدی قائم نہیں ہوتا، اسکے لیے بھی انسان نے ثابت قدم ہونا ہوتا ہے۔۔۔ عائشہ کی انا نے ایک ایسے عمل کو ثبوتاژ کیا کہ یہی آگے چل کر خوشی کی ایک دنیا بن جاتی۔

قرۃالعین حیدر صاحبہ نے کیا خوب کہا کہ ” انسان اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی انا کو اپنی ہستی سے نہیں نکالتا”

آپ ضرور انیس باقر صاحب کی کتاب ( دیسی لبرل) کا مطالعہ کریں وہ لکھتے ہیں کہ ” معاشرتی زندگی میں انسان جو تعلقات بناتا ہے وہ دراصل تنہائی سے بچنے کے لیے ہی بناتا ہے ۔ محبت خود فریبی کے سوا کچھ اور نہیں ، لوگ اپنی تنہائی کو مٹانے کے لیے محبت کا سہارا لیتے ہیں لیکن سوائے شکست خوردگی کے اُن کے نصیب میں اور کچھ نہیں آتا ”

مگر ضروری نہیں ہے کہ اس کتاب کی عبارت سے عملی زندگی میں بھی ایسا ہی ہو ۔ لوگ تو عمر بھر قید تنہائی میں گزارتے ہیں ، کیا اُنکے سنہرے خواب نہیں ہوتے ؟

عائشہ جیسی انا پرست اور خود غرض نے پتہ نہیں کتنے ہی اشفاق ، جیسوں کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں ۔ یہ اُن نم آنکھوں کی ایک کہانی ہے جو یونیورسٹی کے دنوں میں اشفاق مجھے بتا رہے تھے ۔ اگر یہ رویہ ہمارے معاشرے کے اندر ہر کسی کے اندر پایا جاتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اس طرح کے رویوں کی ہم سب کو حوصلہ شکنی کرنی چائیے ۔ یہ ناصرف کسی ایک دد لوگوں کا مسئلہ ہے بلکہ یہ مجموعی طور پر بھروسے اور اعتماد کا مسئلہ ہے ۔ ہر کسی کو عملی زندگی میں اپنا ایک اعتماد قائم رکھنا ہوگا۔ انسانی مشترکہ احساسات کی قدر کرنی ہوگی… جہاں ہم محسوس کر تے ہیں کوئی ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں اس عمل کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چایئے۔

نوٹ: یہ کہا نی ایک حقیقت بھی ہوسکتی ہے مگر سماجی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہاں اصل نام نہیں لکھ سکتا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے