اتنی گہری لمبی نیند(2)

المیہ انسان کی موت نہیں کہ یہ تو پیکج کا حصہ ہے۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ غیرت بھی مر جائے اور حیرت بھی مر جائے۔ حیران ہوں یہ سوچ کر کہ یہ کوئی ہزار ڈیڑھ ہزار سال یا 500سال پرانی بات بھی نہیں جب یورپ نے کروٹیں بدلنی شروع کیں اور صنعتی انقلاب سے لے کر تجارتی، علمی، ثقافتی انقلاب کا کثیر الجہتی آغاز ہوا تو اس کرۂ ارض کی باقی قومیں کون سی بھنگ پی کر کہاں سو رہی تھیں اور اس طرح سو رہی تھیں کہ ان کے خراٹوں نے ایک دوسرے کی سماعتیں ہی اجاڑ کے رکھ دیں کہ انہیں آج بھی کوئی ڈھنگ کی بات سنائی نہیں دیتی۔

1790ء میں دنیا سے رخصت ہونے والے اقتصادی جینئس ایڈم سمتھ نے اور بہت کچھ عطا کرنے کے بعد یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ دولت کا حقیقی ماخذ زراعت یا معدنیات نہیں بلکہ محنت ہے، تو ظاہر ہے اس میں ذہنی فکری تخلیقی محنت سرفہرست ہے۔ پروفیسر ایڈم کے اس تحفے کے آگے پیچھے ہی صنعتی انقلاب کا ابتدائی مرحلہ ہے جو 1760 سے 1860ء تک کےسالوں پر محیط ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ’’انڈسٹری‘‘ صحیح معنوں میں ’’انڈسٹری‘‘ بننے لگی۔ سوتی کپڑا ہی وہ پہلی صنعت تھی جس میں باقاعدہ ’’مشین‘‘استعمال ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ ’’پروڈکشن‘‘ کے حصول کو ممکن بنانے کے 1767ء میں JAWESنے سپننگ جینی ایجاد کی جو دراصل اک ایسا مشینی چرخہ تھا جس میں سولہ تار سوت بیک وقت کاتا گیا۔

صرف 2 سال بعد رچرڈ آرکرائٹ نے واٹر فریم ایجاد کی۔ پھر ایک نئی مشین THE MUB بنی جسے ترقی دیتے ہوئے 20 سال بعد اس قابل بنا دیا گیا کہ یہ بیک وقت عمدہ معیار کے 40 تار دھاگے بیک وقت کاتنے کے قابل ہوگئی۔ 1785ء میں بات پاور لوم کے حقوق حاصل کرنے تک جا پہنچی۔ اسی دوران کپاس کے بنولے سے روئی الگ کرنے والی مشین آئی تو کپڑے کی صنعت کوسستے اور زیادہ خام مال کی فراہمی کا ایک اور اہم مرحلہ طے ہوگیا۔ اسی وقت ایک امریکی سکول ٹیچر ایلی ونٹہی نے اپنی اس مشین کو ’’کاٹن جن‘‘ کا نام دیا۔ کیا دن تھے جب کارٹ رائٹ کی ایجاد کردہ ’’لوم‘‘ کو چلانے کےلئے گائے گھوڑا اور کتا تک بھی جوتا گیا۔

دوسری طرف سٹیم انجن کو انڈسٹری کیلئے استعمال کرنے والا پہلا شخص THOMAS NEWCOMENتھا۔ سٹیم انجن کی بدولت توانائی کا ایسا ذریعہ ملا جسے جب اور جہاں چاہیں استعمال کرلیں۔ واٹ کا انجن میکانی پاور کے دور کا نقطہ آغاز تھا۔ سٹیم سے چلنے والی پہلی ریل کا سہرا جارج سٹیفن سن کے نام ہے جو ایک خود آموز انجینئر تھا۔ اس نے 1825ء میں سٹاکسٹن اور ڈارلنگنٹن کے درمیان جو ریل چلائی اس کی رفتار 15 میل فی گھنٹہ تھی اور انسان نے اس سے پہلے کبھی اس ’’تیز رفتاری‘‘ کے ساتھ سفر نہ کی تھا۔ واہ اشرف المخلوقات واہ۔ کچھ قومیں ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور کچھ قومیں ہیں جو چلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ آج ریل کی سپیڈ سنیں تو جسم میں سنسناہٹیں دوڑنے لگتی ہیں۔

صنعتی انقلاب کے پہلے فیصلہ کن تاریخ ساز تاریخ شکن مرحلہ میں ذرائع ابلاغ کے حوالہ سے سب سے بڑی ایجاد ٹیلی گراف تھی جسے فرانسیسی طبیعات دان ایمپیئر نے 1820ء میں دریافت کرلیا تھا کہ دو مقامات کے درمیان پیغام رسانی کیلئے برقی مقناطیسیت کو استعمال کیا جا سکتا ہے جسے ELECTRO MAGNETISM کہا جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب 1837ء میں ٹیلی گراف کے 3نظام سامنے آ چکے تھے یعنی پاکستان بننے سے صرف 110سال پہلے کی بات ہے۔

جب صنعتی تجارتی انقلاب شروع تھا تو زراعت اور کاشتکاری میں بھی قیامتیں بپا تھیں۔ MANORIAL فارمنگ توڑی جا رہی تھی۔شاملات کی حد بندی ہو رہی تھی۔ انفرادی ملکیتوں کا اشتمال ہو رہا تھا۔ جانوروں کی مخلوط نسل کشی ہو رہی تھی اور ’’جانوروں‘‘ کواس کا علم تک نہ تھا۔ چقندرجیسی نئی فصلیں متعارف ہو رہی تھیں۔ وان لیبگ (1873) نے زرعی کیمیا پر کام شروع کر رکھا تھا جس سے مصنوعی کھاد کا استعمال شروع ہوا۔ کاشتکاری میں مشینوں کا رجحان بڑھا۔ 1834ء میں امریکی کسان سائرس مکارک اپنا میکانی ’’ریپر‘‘ پیٹنٹ کروا چکا تھا۔

چلتے چلتے اس قسط کے آخرپر یہ بھی شیئر کرتا چلوں کہ جب 1857ء کی جنگ آزادی کا آغاز میرٹھ چھائونی سے ہوا تو بذریعہ ٹیلی گراف برطانوی فوج کو فوراً اس کی خبر مل گئی یعنی اگر 1837ء میں ٹیلی گراف موجود نہ ہوتا تو کیا انگریز کو منصوبہ بندی اور ’’باغیوں‘‘ سے نمٹنے کےلئے مناسب مہلت مل سکتی تھی؟

ہمیں جو کام 100 سال پہلے کرنا تھے ہم آج بھی نہیں کر رہے اور جو آج کرنا ضروری ہے وہ ہم 100 سال بعد بھی نہیں کریں گے۔ چند صدیوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ؟؟؟

عظیم صنعتی انقلاب کا دوسرا مرحلہ 1860پہلے سے بھی زیادہ شدید اور طاقتور تھا جس کے تین پہلو ایسے تھے جنہوں نے انسان کا تقریباً سب کچھ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنا کسی دھماکہ سے کم نہ تھا۔ ہزار سال پہلے بھی دمشق اپنی فولادی تلواروں کی وجہ سے مشہور تھا لیکن فولاد سازی بیحد مشکل، سست اور مہنگی تھی۔ 1856میں سر ہنری بیسمر نے ’’دریافت‘‘ کیا کہ اگر پگھلے ہوئے لوہے میں سے ہوا کے جھونکے گزارے جائیں تو تقریباً تمام کاربن نکل جاتی ہے اور لوہا فولاد یعنی سٹیل میں تبدیل ہو جاتا ہے (ہم نے سٹیل مل ’’کھانا‘‘ ایجاد کیا) اس پراسیس میں چند مزید ترامیم کے بعد 1880سے 1914کے درمیان برطانیہ میں 20لاکھ سے 70لاکھ، امریکہ میں 16سے 28لاکھ، جرمنی میں 10سے 20لاکھ ٹن تک کا اضافہ ہو گیا۔ جہاں جہاں لوہا استعمال ہوتا تھا وہاں سٹیل استعمال ہونے لگا۔

دوسرا پہلو تھا ’’ڈائینمو‘‘ کا استعمال جس کی تکمیل 1873ء میں ہوئی اور 1876ء میں INTERNAL COMBUSTIONانجن ایجاد ہوا۔ نتائج یہ تھے کہ لوہے کی جگہ سٹیل، توانائی کوئلے کی بجائے گیس اور پٹرول سے حاصل ہونے لگی۔ صنعتوں میں بجلی کا استعمال عام ہوا۔ خودکار یعنی آٹو میٹک مشینری بنی۔ ALLOYSکا استعمال عام ہوا اور صنعتی کیمیا کی پیداوار عام ہوئی۔ ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ میں انقلاب آگیا۔ سرمایہ کار تنظیموں کی نئی شکلیں وجود میں آئیں۔ انڈسٹریلائزیشن کا عمل پھیلتا گیا وغیرہ وغیرہ وغیرہ اور ہم یا ہم جیسے اُس وقت کیا کر رہے تھے؟ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

پھر یوں ہوا کہ ڈائینمو (DYNAMO) کی ایجاد کے بعد کوئلے کی جگہ بجلی نے سنبھال لی ۔ مائیکل فاراڈے نے ڈائینمو کا اصول 1831میں ہی پیش کر دیا تھا جس کی عملی افادیت 1873میں سامنے آئی۔ رفتہ رفتہ سٹیم انجن پس منظر میں چلے گئے۔ انہیں زیادہ تر الیکٹرک جنریٹر چلا کر بجلی بنانے پر لگا دیا۔ جہاں کوئلے کی قلت تھی وہاں الیکٹرک جنریٹر چلانے کیلئے آبی وسائل استعمال ہوئے۔ توانائی کے نئے ذرائع میں ہونے والی ایک اہم پیشرفت پٹرول اور اس کی مصنوعات ہیں جن میں ہماری کنٹری بیوشن صرف اتنی ہے کہ اس کی قیمتوں میں اضافہ پر ماتم کرنا ہماری قومی ہابی ہے۔ پٹرول کی تاریخ اتنی دلچسپ لیکن طویل ہے کہ کالم اس کی طوالت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا لیکن ایک بات طے کہ یہ کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ دوسری طرف صنعتی عمل کے آٹو مشین میں فوٹو الیکٹرک سیل کا کردار بہت اہم رہا جسے سوئچنگ، دروازے کھولنے، انڈوں کی چھانٹی، کاغذ گننے، ان کی موٹائی معلوم کرنے اور جعلی نوٹ شناخت کرنے میں استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کے مشینوں کو ہدایات دینے اور انہیں چلانے کیلئے بھی مشینیں معرض وجود میں آنے لگیں۔ چلتے پھرتے ’’معدے‘‘ جانتے بھی نہیں کہ کن کن چیزوں کے استعمال پر انہیں کن کن کی محنت اور ذہانت کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ بڑے پیمانے کی پیداوار میں دیگر طریقوں کے علاوہ ’’کنویئر بیلٹ‘‘ جیسے آئیڈیاز کا کیا رول ہے؟ کیا کبھی کسی ڈنگر نما مخلوق نے ایئر پورٹ پر کھڑے ہو کر اس کے بارے میں سوچا؟

بزرگ کہا کرتے تھے کہ جو کم بخت انسان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا وہ اپنے رب کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ طریقہ سب سے پہلے ہنری فورڈ نے 1908میں شکاگو کے گوشت پیک کرنے والوں کے ہاں دیکھا تھا۔ یہیں سے انسپائر ہو کر فورڈ اپنی فیکٹری کو وہاں تک لے گیا کہ اس کے مشہور ماڈل Tکی چیسز ایک گھنٹہ 33منٹ میں اسمبل ہو جاتی تھی۔ دنیا میں پروڈکشن کو اس حد تک بڑھانے اور قیمت کو عام لوگوں کی پہنچ میں لانے کیلئے اس ’’علم‘‘ کا رول بہت کلیدی ہے۔ اس سارے کھیل کے پیچھے اہم ترین بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ہر پیداواری عمل پر سائنس کا غلبہ بڑھتا گیا۔

تیسری دنیا اس لئے تیسری دنیا ہے کہ نہ ان کی سوچ سائنسی ہے نہ ان کے اعمال سائنسی ہیں جبکہ یہ کائناتیں عظیم ترین سائنس کا کرشمہ ہیں کہ ایک حقیر ترین ذرے سے لیکر کہکشائوں تک مخصوص اصولوں پر چل رہی ہیں۔

ہم پہنچے ہوئے بابوں کی تلاش میں رینگتے رہ گئے اور کہیں بھی نہ پہنچ سکے جبکہ غوروفکر کرنے کے عادی چاند اور مریخ تک نہ صرف جا پہنچے بلکہ وہاں بستیاں آباد کرنے کے اولین مراحل میں بھی داخل ہو چکے۔

شاید ہمارے دن بھی پھر سکتے ہیں اگر ہمارے دل اور دماغ پھر جائیں لیکن ہماری تو ساری کائنات ہی ووٹ کو عزت دینے اور خود کو بے عزت رکھنے تک محدود ہے۔(جاری ہے)

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے