تبلیغی جماعت پر ایک ناقدانہ نظر

آقائے مدنی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا ہے. چونکہ کائنات کا نظام ایسا ہے کہ یہاں آنے والے ہر شخص کو ایک محدود وقت کے بعد جانا پڑتا ہے تو اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت کو عام کر کے آپ کی امت کو بھی اس کام میں شریک بنا دیا ہے. اس عمومیت کے سبب آپ کی امت کو جہاں نبوت والے کام کے ساتھ نسبت میسر آئی وہیں پیغمبرانہ اخلاق اپنانے کی ذمہ داری بھی کندھوں پر آن پڑی ہے. یہی وجہ ہے کہ اہل علم جتنا زور دعوت و تبلیغ کے فضائل بیان کرنے پر دیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے اصول و آداب کا لحاظ رکھنے پر دیتے ہیں.

چونکہ انحطاط علمی اور بے دینی کا زمانہ ہے اس لئے دعوت و تبلیغ کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے. برصغیر اس حوالے سے بہت خوش نصیب واقع ہوا ہے کہ دور حاضر کی اکثر تبلیغی و اصلاحی تحریکیں یہاں سے شروع ہو کر چہار دانگ عالم میں اپنی روشنی پھیلاتی رہی ہیں. میوات کے غیر معروف قصبے سے شروع ہونے والی تبلیغی جماعت کی تحریک بھی انہی میں سے ایک ہے. اس تحریک کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام تر مسلم و غیر مسلم دنیا میں شاید ہی کوئی خطہ ارضی ہو جہاں اس کے اثرات و تعارف نہ پہنچا ہو. بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ بحر و بر میں تمام ممکنہ انسانی گزرگاہوں سے وہ لوگ ہو چلے ہیں جو اس عظیم الشان تحریک سے وابستہ ہیں.

اہل علم کا خیال ہے کہ جماعت دعوت و تبلیغ کی اس کامیابی کے پیچھے دو چیزیں ہیں خلوص اور سادگی. اخلاص کا اس سے اعلی مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اپنی بیوی بچے، گھر بار، رشتہ دار، بہن بھائی اور کام کاروبار چھوڑ کر، اپنا قیمتی وقت لے کر اور اپنی جان و مال لگا کر دوسرے انسان کی اخروی بھلائی کے لئے جدوجہد کرتا ہو. اور سادگی کا معیار دیکھیے کہ آج سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی جماعت کا بنیادی ڈھانچہ انہی خطوط پر استوار ہے جو خطوط مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمهما اللہ کے زمانے میں طے ہوئے تھے. وہی سہ روزہ اور چلہ، وہی عاجزی اور ہمدردی. مادیت پرستی کے اس زمانے میں جب ذاتی مفاد کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانا عقلمندی و سمجھداری گردانا جاتا ہو کچھ لوگ اپنا مفاد (جان، مال اور وقت) دوسروں کی اصلاح کے لئے قربان کرنے کو عین ایمان جانتے ہوں تو ان کے اخلاص و للہیت کا مقام کیا ہو گا۔

لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ چند خرابیوں کا ظہور پذیر ہونا بھی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ دعوت و تبلیغ سے جڑے لوگوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ یا پھر واجبی دینی تعلیم رکھنے والے افراد کی ہے جن کی کل سمجھ اتنی سی ہوتی ہے کہ دینی مدارس میں جا کر مسند قرآن و حدیث پر بیٹھے علمائے کرام سے پوچھتے ہیں "حضرت ماشاءاللہ طلبا کی ایک بڑی تعداد آپ کے ہاں پڑھتی ہے، ان کی تربیت و اصلاح کے لئے یہاں دین کے کام (سہ روزہ، شب جمعہ وغیرہ) کی بھی کوئی ترتیب ہے یا نہیں
اس طرح کے واقعات کی دو وجوہات ہیں لا علمی و کم فہمی یا پھر جماعتی شدت پسندی، پہلی وجہ قابل گرفت نہیں بلکہ قابل اصلاح ہے جبکہ دوسری صورت نا صرف قابل گرفت بلکہ قابل مواخذہ بھی ہے کیونکہ یہ رویہ دعوت و تبلیغ سے وابستہ افراد کے لئے زہر قاتل اور جماعت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے.

ایک اور خرابی جو آج کل دیکھنے میں آ رہی ہے اس کا تعلق تربیت کی کمی اور عدم توجہی کے ساتھ ہے وہ خرابی ہے جماعتی احباب کی مالی معاملات میں کوتاہی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے چشم پوشی. والد صاحب ایک بار فرمانے لگے "خدا جانے کیا وجہ ہے کہ ایک زمانے میں جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگانے سے انسان میں جتنی تبدیلی آتی تھی اب تین چلے کے بعد بھی نہیں آتی” میرے خیال میں تاثیر کی اس کمی کا بڑا سبب یہی خرابی ہے. عام دنیا دار مسلمان جب یہ سنتا ہے کہ فلاں کا تعلق نبیوں والے کام "دعوت و تبلیغ” کے ساتھ ہے تو وہ اونچے درجے کی توقعات اس شخص سے وابستہ کر لیتا ہے لیکن جب اسی شخص کو معاملات میں خراب پاتا ہے یا لوگوں کے ساتھ میل جول میں سستی بلکہ بعض مواقع پر بد اخلاقی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں تعمیر توقعات اور خوش گمانیوں کا وہ محل دھڑام سے گر جاتا ہے، رہی سہی کسر معاشرے میں پھیلے فتنے پوری کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام مسلمان ایک فرد کو قصوروار سمجھنے کے بجائے جماعت دعوت و تبلیغ ہی سے بدک جاتا ہے، پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ پہلے تو جماعتی احباب کو دیکھتے ہی راستہ بدل دیتا ہے اور اگر کبھی مجبوری میں آمنا سامنا ہو بھی جائے تو ان کی بات توجہ سے نہیں سنتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دعوت و تبلیغ کے عظیم المرتبت کام سے جڑے افراد اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں. معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں. جس دین حنیف کی دعوت ان کی زبانوں پر ہے اسے عملی طور پر زندہ کریں۔ کیونکہ عمل میں جو اثر ہے وہ الفاظ میں ہرگز نہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ عمل کی زندگی تھی شریعت مطہرہ کے جن احکامات کی تبلیغ وہ انسانیت کو کرتے تھے اپنی زندگی انہی کے مطابق گزارتے تھے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو قرآن کریم نے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ آج اگر ہم بھی عملی نمونہ بن کر دکھا دیں تو وہ دن دور نہیں جب لوگوں کی زندگیاں سہ روزہ نہیں بلکہ ہفتہ وار گشت سے ہی بدلنے لگ جائیں گی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص خان تحریر میں اپنا مزاج اور اسلوب رکھتے ہیں ۔ ان کا تعلق خیبر پختون خواہ کے ضلع مانسہرہ سے ہے ۔ انہوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی ۔ حیدر آباد یونی ورسٹی سے ایم فل کیا ۔ آج کل بیرون ملک ادویہ سازی کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ آئی بی سی اردو پر ان کے کالم مستقل شائع ہوں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے