ہم کون ہیں؟

حاتم نام رکھنے سے کوئی سخی نہیں ہو جاتا، اس کے لئے سخاوت کرنا ضروری ہے، عبداللہ کہلوانے سے ہی کوئی اللہ کا بندہ نہیں بن جاتا، اس کے لئے اللہ کی غیر مشروط اطاعت لازمی ہے، رستم بننے کے لئے طاقت اور شجاعت درکار ہے، عالم چنا کہلانے سے کوڈو کا قد نہیں بڑھ جائے گا، گیندے کو گلاب پکارنے سے اس کی خوشبو اور صورت تبدیل نہیں ہوگی، زہر کی بوتل پر ’’آب حیات‘‘ کا لیبل چسپاں کرنے سے اس کا کیریکٹر تبدیل نہیں ہوگا تو میں صرف ’’مسلمان‘‘ کہلانے سے ہی مسلمان کیسے ہوسکتا ہوں؟اس کے لئے بہت کچھ تجنا اور بہت کچھ تھامنا ہوگا ورنہ ’’منافقت‘‘ جیسے بھیانک اور شرمناک الزام کا سامنا ہوگا اور جب ایسا ہوگا تو کیا ہوگا؟

زندگی میں کچھ کتابیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جنہیں انسان بار بار پڑھتا ہے۔ اسی طرح کی ایک کتاب 2008ء سے میری لائبریری کی زینت ہے۔ اس کتاب کا عنوان ہے ’’قرآن کا دکھ‘‘۔ یہ اسرار ایوب صاحب کی فکر و تحقیق کا شہکار ہے جسے جب پڑھا، بے اختیار بے قرار ہو کر سوچا …. میں کون ہوں؟ میرا ہی ایک پرانا شعر ہے۔ ؎

میں کون ہوں، میں یہی تو نہیں بتا پایا

میں تم سے اپنا تعارف نہیں کرا پایا

تعارف تو وہ کرائے جو جانتا ہو کہ وہ ہےکون؟ جو بیچارہ خود سے ہی متعارف نہ ہوا، وہ کسی اور سے اپنا تعارف کیسے کرا سکتا ہے؟ اور اگر میری یہ کیفیت ہے تو کروڑوں کی آبادی والے اس ملک میں ممکن ہےکچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو کبھی کبھی یہ سوچتے ہوں:

میں کون ہوں؟

ہم کون ہیں؟

تو آیئے اسرارایوب کی فکر و تحقیق کی روشنی میں خود کو تلاش کرنے اور پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود سے ملاقات ہوگئی تو خوب، بہت خوب اور اگر نہ بھی ہوئی تو خیر ہے کہ ہم جیسوں کی بھاری اکثریت تو زندگی بھر خود سے ملے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔

’’اور تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نظام خداوندی کے قیام کے لئے سرگرداں رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ خدا ان کو زمین میں حکومت عطا کردے گا جس طرح خدا نے (عمل صالح کرنے والی) اقوام سابقہ کو زمین میں حکومت عطا کی تھی‘‘ (55/النور)

’’مومنین دنیا اور آخرت دونوں کی خوشگواریاں حاصل کرنے کے لئے غور و فکر کرتے رہتے ہیں (220-219؍ البقرۃ)

جبکہ یہاں بقول اقبال ؎

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

یہ کون لوگ ہیں جو ہمیں ’’مست‘‘ رکھے ہوئے ہیں اور ’’مزاج خانقاہی‘‘ میں پختہ تر کرنے میں مصروف ہیں؟

’’مومنین کو دنیا اور آخرت دونوں میں خوش گواریاں نصیب ہوتی ہیں‘‘ (64/یونس، 30/ النمل، حم السجدۃ)

’’ان کی سزا اس سے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں‘‘ (85/البقرۃ)

’’(انہیں دنیا میں بھی تاریکی ملتی ہے اور آخرت میں بھی) دنیا کے اندھے آخرت کے بھی اندھے ہوتے ہیں‘‘ (72/بنی اسرائیل)

’’اے محمدؐ ان سے کہہ دو کہ پاک ہے میرا پروردگار (میں یہ سب کچھ کس طرح کر سکتا ہوں) میں تو صرف ایک پیغام لانے والا انسان ہوں‘‘ (93/ بنی اسرائیل)

’’معجزے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں‘‘ (50/ العنکبوت)

’’اس سے بڑھ کربھٹکا ہوا اور کون ہے جو (اللہ کو چھوڑ کر) اسے پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتا(جواب دینا تو دور کی بات کہ جن لوگوں کو وہ پکارتا ہے) انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے۔ وہ اس کی پکار سے یکسر بے خبر ہوتے ہیں‘‘ (5/الاحقاف)

’’جو لوگ قبروں میں دفن ہیں تم انہیں کچھ نہیں سنا سکتے‘‘(22/ فاطر)

’’اور قیامت کے روز (جب وہ تمہارے روبرو ہوں گے تو) وہ تمہارے شرک سے (یعنی یہ جو تم انہیں پکارتے رہے ہو اس سے) نفرت و بیزاری کا اظہار کریں گے‘‘ (14/فاطر)

’’یہ لوگ تو ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے چاہے اس کے لئے سب اکٹھے ہو جائیں (مکھی بنانا تو دور کی بات) اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو یہ اس سے وہ بھی نہیں چھڑا سکتے‘‘ (73/الحج)

’’یہ لوگ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں‘‘ (13/فاطر)

میں کون ہوں؟

ہم کون ہیں؟

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے