ڈی این اے ڈھونڈئیے

انسان کسی اور کو جانے نہ جانے، پہچانے نہ پہچانے، خود کو جاننا پہچاننا بہت ضروری ہے لیکن اس کے باوجود انسانوں کی بھاری اکثریت خود کو صحیح طور پر جانے پہچانے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود کو پہچاننے،لمبی چوڑی رقم خرچ کئے بغیر اپنے ڈی این اے کو جاننے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

شجرۂ نسب بھی کچھ نہیں کیونکہ بڑے بڑے خاندانیوں کے گھر نیچوں نے جنم لیا اور نیچوں نے بڑے بڑے خاندانوں کو جنم دیا کہ بے شک وہ انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے ورنہ اقبال کبھی یہ کہنے پر مجبور نہ ہوتا کہ ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے‘‘عثمانیوں کے گھر بھی زنانیوں جیسے مرد پیدا نہ ہوتے اور نہ کسی کو یہ انمول جملہ بولنا پڑتا کہ ’’مجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ میرا دادا کون تھا، میرا اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرے دادا کا پوتا کون ہے؟‘‘ اور نہ ہی ’’پدرم سلطان بود‘‘ جیسے محاورے جنم لیتے یعنی ’’بن فلاں‘‘ اور ’’بنت فلاں‘‘ کی کوئی اہمیت نہیں۔

اک اور طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم خود کو اپنی دولت ، طاقت، شہرت، اہمیت سے پرکھیں اور ان سے اپنا فخر کشید کریں تو یہ بھی سراب اور دھوکہ ہے جس کا تازہ ترین تاریخی ثبوت انگریز بیورو کریٹس کے لکھے ہوئے وہ گزیٹئرز ہیں جن میں قیام پاکستان سے پہلے کے رئوسا، شرفا، معززین، عمائدین وغیرہ کے نام موجود ہیں جبکہ آج ان کے ناموں اور نسلوں کے وجود سے بھی کوئی واقف نہیں جبکہ ماضی قریب کے کمی کمین،دست کار، گم نام، بھوکے ننگے آج رئوسائے شہر، مقتدر، معزز، بااثر سمجھے جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ نہ حسب نسب اور نہ ہی مال، منال، منصب، کسی کا اصل تعارف ہوسکتا ہے۔ رہ گئی شکل صورت تو یہ بھی آنی جانی چیزیں ہیں ورنہ ماضی کے حسین ترین چہروں کا ’’آج‘‘دیکھ لیں، وحشت ہوتی ہے، پہچانے نہیں جاتے تو پھر خود کو جاننے کا صحیح طریقہ اورشارٹ کٹ کیا ہے؟

کسی لمبی چوڑی ایکسر سائز اور ڈرل کی ضرورت نہیں۔ صرف اس بات پر غور کریں کہ جب دوست احباب جمع ہوں تو ان کے فیورٹ موضوعات کیا ہوتے ہیں کہ ’’کبوتر باکتوبر باز باباز‘‘ والی بات ہے اور انسان اپنی صحبت سے پہچانے جاتے ہیں۔ حلقہ ٔ احباب (LIKE MINDE) پر ہی مشتمل ہوتا ہے اور شاعر بھی یونہی نہیں کہتا کہ ’’شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘۔ مطلب یہ کہ انسانوں کے درمیان گفتگو کے دوران ان کے موضوعات ہی ان کی اصل پہچان ہوتے ہیں جن سے ان کے ڈی این اے تک رسائی بہت سادہ اور آسان ہوتی ہے۔ ریلیکسڈ ماحول میں ہونے والی باتیں ہی دراصل وہ باتیں ہوتی ہیں جو انسانوں کو بے نقاب کردیتی ہیں۔ ہم کیا باتیں کرتے ہیں؟

میں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران مختلف ’’ایج گروپس‘‘ اور ’’انکم گروپس‘‘ کو اپنے طریقے سے کریدا تو معلوم ہوا کہ ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ بحوالہ مہنگائی کے علاوہ فیورٹ ترین موضوع یہ ہوتا ہے کہ کس ہوٹل، ریستوان یا ڈھابے کے کون کون سے کھابے زیادہ مشہور اور لذیذ ہوتے ہیں۔ فلاں کے پائے، فلاں کی دنبہ کڑاہی، فلاں کا حلیم، ہریسہ، بریانی، پیزا اور سٹیک زبردست ہوتا ہے۔ جونیئر گریڈز کے افسروں میں اس موضوع پر کھل کر گفتگو ہوتی ہے کہ کون کتنا مال بنا رہا ہے۔ ذرا سینئر لوگوں میں پوسٹنگ ٹرانسفر مقبول موضوع ہے جبکہ متمول نئی نسل کے بچے بچیوں میں مختلف قسم کے برانڈز، ایپس، گاڑیاں، لڑکیاں اور چھٹیاں زیربحث ہوتی ہیں یا یہ کہ کون کہاں کس کے ساتھ کس طرح ’’چِل‘‘ (CHILL) کر رہا ہے۔ پارک میں ریگولر واک کرنے والے ٹھٹھے، مذاق، سوشل میڈیا کی لغویات اور سیاسی افواہوں پر مغز کھپائی کرتے ہیں۔

قارئین! باقی بھی اسی طرح کا رطب و یابس ہے۔ مجال ہے جو کسی سے سنا ہو کہ ان کے درمیان کوئی علمی، فکری، ادبی، سائنسی گفتگو بھی ہوتی ہے۔ صرف چند عشروں پہلے کی بات ہے کہ جہاں چار یار اکٹھے ہوتے کوئی کتاب یا مصنف زیر بحث آجاتا یا پھر قومی، بین الاقوامی سیاست اور ٹرینڈز پر بات ہوتی اور ہاں میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ ہمارے ’’فیورٹ‘‘ موضوعات میں سے ایک مقبول موضوع اپنے ہی ’’دوستوں‘‘ کی غیر موجودگی میں ان پر طبع آزمائی کا مشغلہ ہے۔

جسے شاید غیبت بھی کہا جاسکتا ہے۔

مستقبل کے لئے یہ کیسا ’’خام مال‘‘ تیار ہو رہا ہے؟

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے