پروفیسرز کی چوری پکڑی گئی

مہذب دنیا میں پروفیسر کو عدالت میں دیکھ کر جج صاحبان احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔

سکندر اعظم کے ساتھ یہ جملہ منسوب ہے کہ ’’میں باپ سے بھی بڑھ کر اپنے استاد کا احترام کرتا ہوں کیونکہ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جبکہ میرے استاد کی تربیت مجھے آسمان کی بلندیوں تک لے گئی ‘‘۔

حاکم وقت نے اپنے وقت کے قابل احترام استاد اور عالم کو ملاقات کیلئے یاد کیا تو استاد نے جواب دیا ’’میں تمہیں ملنے آئوں گا تو میری عزت میں کمی ہوگی،تم اپنے فرزند کو میری شاگردی اختیار کرنے کیلئے ساتھ لیکر خود میرے پاس چل کر آئو گےتو تمہاری عزت میں اضافہ ہوگا‘‘۔حاکم وقت نے استاد کی اس نصیحت پر عمل کیا۔

سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ جب بچہ تھا تو بہت بگڑا ہوا اور سرکش تھا۔ اس کے والد سلطان سلیم نے یونان سے ایک استاد بلایا اور ولی عہد کو اس کے مکمل اختیار میں دیتے ہوئے کہا ’’ یہ سلطنت عثمانیہ کا مستقبل ہے اور میں اسے تمہارے سپرد کر رہا ہوں‘‘ استنبول عالم اسلام کو اس کا تحفہ ہے، سلطان محمد فاتح کا تحفہ۔

استاد کی عظمت و اہمیت میں کوئی شک نہیں۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی اہم اور مقدس ترین رشتہ ہے اسی لئے علامہ اقبال نے ’’سر‘‘ کا خطاب قبول کرنے سے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ ان کے استاد کو شمس العلماـ کا خطاب پیش کیا جائے۔

کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی رواج تھا لیکن جب یہ سماج بتدریج ادھڑنے لگا تو یہ مقدس رشتہ بھی ادھڑ تا گیا۔ استاد کمرشل اور ڈنڈی باز ہو گئے، شاگرد بدتمیز ہو کر اپنے اساتذہ کے گریبانوں سے کھیلنے اور ان پر آوازے کسنے لگے۔ آج اس ملک میں ’’تعلیم‘‘ اور ’’طب‘‘ دو ہی قسم کے دھندے عروج پر ہیں اور آدم کو انسان بنانے کا کام سو فیصد کاروبار میں تبدیل ہو چکا جس کے بھیانک ترین نتائج مستقبل قریب میں ہمارے منتظر ہیں۔ صورتحال کا سادہ ترین ثبوت یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینلز پر بے شمار ٹکرز کی املا غلط بلکہ مضحکہ خیز ہوتی ہے اور اچھے اچھوں کا تلفظ بھی بھونڈا ہوتا ہے۔

[pullquote]قارئین ![/pullquote]

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج مجھے یہ کس قسم کا دورہ پڑا ہے اور میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں تو جواباً میں سرخی سمیت ایک انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک اخباری خبر آپ کی خدمت میں پیش کروں گا تو آپ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ میرا دکھ کیا ہے۔ پہلے’’سرخی‘‘

’’پاکستانی محققین کا ’’ادبی سرقہ‘‘ عالمی ادارے نے 250مقالے مسترد کر دیئے‘‘۔

’’پروفیسرز کی چوری پکڑی گئی، بین الاقوامی

ادارے نے تحقیقی مقالوں میں ’’ادبی سرقہ‘‘ مشکوک ڈیٹا شامل کرنے والے اساتذہ اور ان کے اداروں کی فہرست جاری کر دی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ ’’دی ریٹریکشن واچ ڈیٹا بیس‘‘ کے مطابق پاکستان کے 900محققین ادبی چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مذکورہ محققین کے 250 سے زائد تحقیقی مقالوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی، یو ای ٹی، جی سی یو کے محققین بھی مشکوک کارروائیوں میں شامل۔ سب سے زیادہ ادبی چوری قائداعظم یونیورسٹی کے اساتذہ نے کی۔ مذکورہ اساتذہ اب بین الاقوامی مجلوں میں اپنی تحقیق شائع نہیں کروا سکیں گے‘‘

[pullquote]قارئین محترم![/pullquote]

یوں تو ساری خبر ہی انتہائی شرمناک ہے ….کیسے کم بخت ہیں جو اپنے ملک کی عزت میں اضافہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی بے عزتی کا باعث تو نہ بنتے لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کے فکری چوروں نے تو انتہا کر دی اور اتنا بھی نہ سوچا کہ قائد اک ایسے انسان تھے کہ ان کے حریف بھی ان کی دیانت کا برملا اعتراف کیا کرتے تھے۔ کیا یہی وہ چور ہیں جو مستقبل کے معماروں کی تعمیر اور تربیت کریں گے؟ لیکن کیسا مستقبل؟

فاقوں، قرضوں کی دلدلوں میں دھنسے دھیرے دھیرے غرق ہوتے ہوئوں کو تو اگلے وقت کی روٹی کے علاوہ اور کچھ نہ دکھائی دےگا نہ سنائی دے گا۔ چند برس پہلے ڈاکٹر عشرت حسین صاحب نے اپنی ایک کتاب کے عنوان میں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’ان گورن ایبل‘‘ ملک قرار دیا تھا۔ خاکم بدہن میرے نزدیک تو بات شاید اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔

محاورہ ہے ’’ایک قدم آگے دو قدم پیچھے‘‘ اس میں ترمیم کر لیں ’’ ایک قدم آگے سو قدم پیچھے‘‘

دیوار ِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے