عرب دنیا کا موتیا اور موتیائی خدشات

عرب اسپرنگ دسمبر دو ہزار دس میں تیونس کے ایک ٹھیلے والے محمد بوالعزیزی کی احتجاجی خود سوزی سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی و معاشی گھٹن سے جنم لینے والی لہر مصر ، لیبیا ، شام ، بحرین اور یمن تک پھیل گئی۔

تیونس میں اس تحریک کے نتیجے میں نسبتاً کھلے پن والی جمہوریت پنپی اور جیسی کیسی چل رہی ہے۔مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹ گیا، اخوان المسلمین نواز محمد مرسی صدرِ مملکت منتخب ہو گئے اور دو ہزار تیرہ میں انھیں جنرل عبدالفتح السسی نے چلتا کر دیا۔ مصری سماج تب سے بوٹوں تلے ہے۔

ہمسایہ ملک لیبیا میں کرنل قذافی کو مشتعل ہجوم نے مار ڈالا۔ تب سے لیبیا سیاسی عدم استحکام کا پنڈولم بنا ہوا ہے۔شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جسے روس اور ایران کی مدد سے بشار الاسد کے حق میں پلٹ تو دیا گیا مگر چنگاریاں اب تک اڑ رہی ہیں۔بحرین میں شیعہ اکثریت کے سیاسی مطالبات سعودی قیادت میں خلیج تعاون کونسل کے دستوں کی مدد سے دبا دیے گئے۔

یمن میں عرب بہار کا دورانیہ مختصر رہا۔پھر اقتدار پر قبضے کی کھینچا تانی کے نتیجے میں خانہ جنگی اور پھر خلیجی ریاستوں کی مسلح کارروائی نے یمن کو ایک انسانی المیے میں بدل دیا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔اسی عرصے میں عراق اور شام میں داعش کا عروج و زوال بھی دیکھنے میں آیا۔سوڈان میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹا، عوامی دباؤ کے نتیجے میں سویلین حکمرانی کو تھوڑی بہت جگہ مل گئی اور اب پھر سوڈان پر نیم فوجی حکمرانی ہے۔

عرب اسپرنگ کو بارہ برس گزر گئے، لیکن اس تحریک نے حکمرانی کے کہنہ ڈھانچے میں کھلے پن کی جو مختصر سی دراڑ ڈالی اس کے سبب عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ، بدتر ہوئی یا جوں کی توں ہے ؟ ایک عشرے سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود یہ سوال قائم و دائم ہے۔

عرب اسپرنگ کا عوامی احتجاجی دورانیہ تو کم و بیش چھ ماہ تک محدود رہا مگر اس نے جمود زدہ سماج میں جو اتھل پتھل پیدا کی اس کے دائرہ وار اثرات اب تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔سعودی عرب کو بے چینی کی لہر سے محفوظ رکھنے کے لیے حکمران خاندان شہریوں کو مزید مالی مراعات کے ساتھ ساتھ لبرل ثقافتی پالیسیوں کو اپنانے پر مجبور ہوا مگر سیاسی اصلاحات اور اختیاراتی ارتکاز میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔

امارات نے ممکنہ بے چینی پیدا کرنے والے سرخیلوں پر اپنی گرفت مضبوط کر دی اور مصر و لیبیا ، شام و یمن سمیت جہاں جہاں عرب اسپرنگ کی لہر کا رخ موڑنے کی بالجبر کوشش کی دامے درمے حوصلہ افزائی کی۔

ایران براہِ راست عرب اسپرنگ سے متاثر نہیں ہوا،لیکن حفظِ ماتقدم کے طور پر عراق ، شام ، لبنان اور یمن میں اپنی سیاسی و عسکری سرگرمیوں کو وہاں کی روایتی سیاسی قوتوں کو سہارا دینے کے لیے بخوبی استعمال کیا۔

گو اسپرنگ ( موسمِ بہار ) فی الحال کہیں نظر نہیں آتی مگر اسپرنگ بورڈ برقرار ہے اور دوبارہ کسی بھی وقت اچھال پیدا کر سکتا ہے۔یہ اچھال پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور پرتشدد ہو سکتی ہے اور اس سے کئی ریاستی ڈھانچے بقائی خطرے میں آ سکتے ہیں۔

مثلاً عرب دنیا اور شمالی افریقہ میں آمریت کی مجموعی گرفت بظاہر پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے اور معاشی و سیاسی محرومی کے جذبات اور آمرانہ ڈھانچے کے مابین کوئی سیاسی اعتدالی بفر دکھائی نہیں دیتا۔

چنانچہ پورا خطہ اس پریشر ککر کی طرح ہے جس کا ڈھکن بھاپ روکنے کے لیے مضبوطی سے بند کیا گیا ہے،مگر بھاپ ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو مضبوط سے مضبوط ڈھکن بھی اڑ جاتا ہے اور اگر اس بے پایاں قوت کو منظم اور ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی درمیانی سیاسی قوت نہ ہو تو باورچی خانے کی چھت بھی اڑ سکتی ہے۔

جیسے کہ لبنان اگرچہ ایک دیوالیہ ریاست ہو چکی ہے اور متوسط طبقہ معاشی لحاظ سے سڑک پر آ چکا ہے مگر روایتی سیاسی قوتیں اپنی جگہ چھوڑنے یا نئے پودوں کا خیرمقدم کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں۔چنانچہ کل کا نسبتاً متوسط معیشت والا لبنان آج اقتصادی ابتری کا عرب مثالیہ بن چکا ہے۔

چونکہ انیس سو پچھتر تا بانوے جاری رہنے والی لبنانی خانہ جنگی کی خوف ناک یادیں اب بھی ہر شہری کے ذہن سے چمٹی ہوئی ہیں لہٰذا معاشی پگھلاؤ کے باوجود وہاں کا متوسط اور نیم متوسط طبقہ ہتھیار اٹھانے کے بجائے روایتی احتجاجی طریقوں پر کاربند ہے۔ دوسری طرف وہ گروہ اور قوتیں جنھوں نے سترہ سالہ خانہ جنگی میں ہتھیار اٹھائے چونکہ آج طاقت کے سرچشمے پر آپس میں حصے بخرے کرنے کے نتیجے میں مطمئن اور قابض ہیں اس لیے انھیں باہمی سرپھٹول کی فی الحال ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔یوں لبنان ایک اور خانہ جنگی سے بچا ہوا ہے۔

عراق میں بظاہر پارلیمانی ڈھانچہ کام کر رہا ہے مگر انتخابی عمل پر سے عام عراقی کا یقین اٹھتا جا رہا ہے اور بڑھتی ہوئی اقتصادی ناہمواری ، فرقہ وارانہ و نسلی امتیاز اور طبقاتی بدظنی سے پیدا ہونے والے احتجاج کا جواب اسٹیبلشمنٹ سختی سے دینے کی عادی ہے۔یہ صورتِ حال کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

مصر میں بظاہر سب بھلا چنگا ہے۔صدر السیسی کی اقتدار پر گرفت پہلے کے کسی بھی حکمران سے زیادہ مستحکم ہے ، انھیں مغربی دنیا ، اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کی بھرپور سیاسی و چیک بک پشت پناہی بھی میسر ہے۔ مگر بے روزگاری کی شرح حسنی مبارک کے دور سے بھی زیادہ ہے اور قانونی سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں۔ان حالات میں یہ گرفت زدہ امن کب تک قائم رہتا ہے اور پریشر ککر کب تک سلامت رہتا ہے کوئی سیاسی پنڈت اندازہ لگانے کی حیثیت میں نہیں۔ بحرین کی بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔

شام چونکہ کھنڈر بن چکا ہے۔ایک عشرے کی خانہ جنگی سے لوگ یا دربدر یا نڈھال ہیں لہٰذا اگر وہاں بظاہر خاموشی ہے بھی تو ویرانے کی سسکتی خاموشی ہے۔ شام کا ہمسایہ ترکی جو ایک برس پہلے تک قطر سے لیبیا تک سنا اور دیکھا جا رہا تھا۔اس وقت کرنسی کے بحران کے سبب پتلی حالت میں ہے۔ چنانچہ اس کی خارجہ پالیسی کا دم خم بھی کمزور پڑ گیا ہے۔کل تک اردوان حکومت امارات اور سعودی پالیسیوں کے سامنے شمالی افریقہ سے قطر تک خم ٹھونک کے کھڑی تھی۔آج ترکی اقتصادی مجبوریوں کے سبب سعودی و اماراتی سرمایہ کاری کی جانب تک رہا ہے۔

ان حالات میں سب سے زیادہ مطمئن اسرائیل ہے اسی لیے فلسطینی پہلے سے کہیں زیادہ غیر مطمئن ہیں۔

کہنا یہ ہے کہ جو نظر آ رہا ہے وہ دھوکا ہے۔عرب اسپرنگ ایک وارننگ تھی کہ عرب سخت گیر سب اچھا ہے محسوس کرانے والے موتیا کا آپریشن کروا لیں۔اب یہ موتیا اور موٹا ہو چکا ہے اور لوگ پتلے ہوتے جا رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے