خیر و شر

انسانی زندگی بھی عجب مجموعہ تضادات ہے کہ ایک ہی وقت میں آپ کو روشنی اور اندھیرا اور خیرو شر برابر کی جلوہ نمائی کرتے نظر آتے ہیں جہاں ایک کان میں برداشت، محبت ، اخلاق اور خوش دلی کی کوئی بات پھول کھلاتی ہے تو وہیں دوسرے کان میں ظلم، شقاوت ، بے انصافی اور جارحیت پر مبنی کوئی رویہ زندگی سے ایمان اُٹھانے کا سندیسہ لیے در آتا ہے۔

اسمارٹ فون اور واٹس ایپ کی مہربانی سے روزانہ دُعا اور خیر سگالی کے بہت سے پیغامات آشنا اور نا آشنا ہر طرح کے بہی خواہوں کی طرف سے موصول ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک اپنے موضوع یا خوبی تحریر کی وجہ سے دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی متوجہ اور شانت کرتے ہیں جب کہ کوئی کوئی پیغام کسی ذاتی یا اجتماعی مسئلے سے بھی متعلق ہوتا ہے جو کم یا زیادہ پریشانی کا باعث بنتا ہے ۔

گزشتہ کئی ماہ سے روزانہ دو اجنبی نمبروں سے اخلاق عالیہ اور رموزِ حیات سے متعلق ایسے پیغامات ملتے ہیں جن میں اپنے آپ کو مکمل پڑھوانے کی خوبی اور تاثیر ہمیشہ بڑے بھرپور اور دلکش اندازمیں موجود ہوتی ہے اول الذکر عام طور پر کسی صوفیانہ تقریر یا تحریر سے ماخوذ ہوتی ہے جب کہ دوسری تحریرحکمت اور دانش کا ایک عمدہ نمونہ ہوتی ہے مثال کے طو رپر آج ہی ملنے والے خیر بنیاد پیغامات دیکھیے ، شر کی داستان ان کے بعد چھیڑیں گے ۔

’’محبت سے آشنا، محبت کی رُوح سے آشنا، محبت کی تاثیر سے آشنا اور محبت کے اعجاز سے آشنا لوگ ہر رُت میں پیار کی راہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ باطن ایک علم ہے جس کی عطا ہوجائے وہ اسے باطن نہیں کہتا بلکہ ظاہر کہتا ہے ۔ یہ علم باطن سے ظاہر میں آتا رہتا ہے رحمت کا تو کام ہی یہ ہے کہ محروم کو ہمیشہ حق کے سوا دیتی ہے ۔ (واصف علی واصف) دوسری تحریر کا عنوان ہے ’’ صبح بخیر زندگی۔‘‘

’’ جب سے محبتیں خون سے نکل کرفون میں منتقل ہوئی ہیں محبتوں میں زوال، بہت تیزی سے آیا ہے ایک انسان کی اچھائی اور خوب صورتی کی کمی کو اخلاق پورا کرسکتا ہے مگر اخلاق کی کمی کو خوبصورتی پورا نہیں کرسکتی کوشش کریں زندگی کا ہر لمحہ اپنی طرف سے سب کے ساتھ اچھے سے اچھا گزرے۔

آپ اگرخود سے مطمئن ہیں کہ آپ اپنے کام اور پیشہ کے ساتھ مخلص ہیں صرف سچائی کا ساتھ دے رہے ہیں تو اللہ کا شکر کریں اللہ نے آپ کو بہترین انسان بنایا ہے رہی دنیا کی بات دنیا صرف اپنی خوشامد اور اپنی ہی بات منوا کر خوش ہوتی ہے۔ یاد رکھیں اگر آپ اخلاق وکردار سے خوبصورت نہیں ہیں تو کوئی بھی آپ سے روزانہ پانچ مرتبہ ہر قسم کے حالات میں ملنا پسند نہیں کرے گا۔خوشی ، غمی ، کمزوری ، طاقت اور ٹوٹے ہوئے حال میں سوائے رحمن الرحیم کے۔

خوبصورت زندگی کی تعمیر دعاؤں پر ہوتی ہے دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ خوبصورت زندگی ہمیشہ آپ کا نصیب رہے ہم میں باہمی محبت و خلوص کی دولت سے مالا مال فرمائے‘‘

خیر کی تلاش اور عملِ خیر کی یہ دُھن بلاشبہ بہت زندگی آمیز اور زندگی آموز ہے کہ اس کی روشنی میں ہم چیزوں کی اصل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں مگریہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ اس دنیا میں بہت سے لوگ ایک ایسے ظلم کا بازار بھی گرم کیے بیٹھے ہیں جس پر ندامت اور خجالت کے بجائے اپنے چھوٹے ذہن اور تعصبات کو باعثِ فخر گردانتے ہیں اور ساری دنیا کو تعلیم، تہذیب اور انسانیت سکھانے کا دعویٰ کرنے کے باوجود خود بڑے فخریہ انداز میں ان سب کی نفی کرتے ہوئے ظلم اور بے انصافی کا پرچم پوری دنیا میں لہراتے پھرتے ہیں جس کی ایک زندہ مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر چلائے جانے والا کیس اور سنائی جانے و الی سزا ہے جس کے خلاف دنیا بھر کی دہائی اُن کے نزدیک ایک بے معنی شور ہے جس کی طرف توجہ دینے کی فرصت اُن کے پاس ہے ہی نہیں، کچھ عرصہ قبل امریکا میں ایک دہشت گردی کے واقعے کے حوالے سے ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کی معاونت اور اُس کی مبینہ ہلاکت کی خبریں بغیر کسی تصدیق کے اور صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے کیس کو مزید متنازعہ بنانے کے لیے پوری دنیا میں پھیلا دی گئیں اور اس شرانگیزی کا پردہ چاک ہوا تو کسی وضاحت اورمذمت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔

ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کی طرف سے اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کو اس پورے واقعے کی انتہائی تکلیف دہ معلومات بذریعہ ای میل فراہم کی گئی ہیں جو خیر کے سکّے کے دوسرے رُخ یعنی ’’شر‘‘ کی نقاب کشائی کررہی ہیں اس تحریر کے چند اقتباسات کچھ اسی طرح سے ہیں۔

’’ڈاکٹر عافیہ کی پوری فیملی والدہ کی طبیعت کی وجہ سے پریشانی کا شکار تھی کہ اتوار 16جنوری کو امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنائے جانے کا مبینہ واقعہ پیش آگیا جس میں امریکی میڈیا نے بِنا کسی تصدیق کے ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کو ملوث کردیا۔ الحمدللہ ٹیکساس میں یرغمالیوں کا بحران ختم ہوگیا ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر عافیہ کے بھائی محمد علی صدیقی کے یرغمال کی صورتِ حال میں ملوث ہونے کی خبر جھوٹی اور بے بنیاد اور افواہیں بھی دم توڑ گئیں۔اصل بات یہ ہے کہ جب بھی عافیہ کے حق میں عالمی اور ملکی سطح پر ہمدردی کی کوئی زبردست لہر پید اہوتی ہے اور اُس کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑنے لگتا ہے تو اس طرح کے واقعات اچانک وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔

اس طرح بے گناہ کو مجرم بنا دیا جاتا ہے ۔غیر ذمے دارانہ صحافت اور برائی کا پرچار کرنے والے کتنی زندگیا ں برباد کر یں گے؟ بدقسمتی سے یہ افواہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ڈاکٹر فوزیہ اور عافیہ کی والدہ شدید بیمار اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں۔عافیہ موومنٹ کی پالیسی میں تشدد اور انتہا پسندانہ فکرو عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کے قانونی مشیر جان فلائیڈ اور ڈاکٹر عافیہ کی وکیل مروہ ایلبیلی نے اس موقعے پر فوری طور پر بیان جاری کیا کہ ان کے موکل کا اس افسوسناک واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے ہم واضح طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والا ملزم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بھائی نہیں ہے ۔قانونی مشیروں نے ان امریکی صحافیوں سے مطالبہ بھی کیا کہ جنھوں نے حملہ آور شخص کو ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کارکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنی رپورٹیں درست کرلیں اور صدیقی خاندان سے معافی مانگیں۔اس تمام کارروائی کے دوران حکومتِ پاکستان کی خاموشی افسوسناک ہے پاکستانی شہریوں کی حفاظت کے معاملے میں حکمرانوں، انتظامیہ اور ریاست کے دیگر ستونوں کا کردار شرمندہ کرنے والا رہتا ہے ۔‘‘

ڈاکٹر عافیہ کا کیس امن اور انصاف کے تمام علمبرداروں کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اُن پر عائد کیے گئے الزامات کسی ٹھوس ثبوت اور کامن سنس دونوں حوالوں سے بہت کمزور اور بودے ہیں اور ان کی بنیاد پر ایک کمزور اور بیمار عورت کو جیل میں ڈالے رکھنا بلاشبہ ایک بہت ہی غلط اور غیر انسانی عمل ہے جسے شیطانی شر کا نام دینا ہر اعتبار سے جائز اور صحیح ہوگا اور اس کے مقابلے کے لیے تمام خیر پسند قوتوں کو یک دل اور یک جان ہونا پڑے گا کہ شر کو شکست دینے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے