علم اور فکر کی کمی والے معاشروں میں افواہیں زیادہ پھیلتی ہیں

گلگت دنیور کی مرکزی امام بارگاہ کے امام جمعہ اور اسلامی تحریک پاکستان کے صوبائی صدر علامہ شیخ مرزا علی کا ماننا ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرہ میں رونما ہونے والے حادثہ یا واقعہ کے حوالے سے مختلف آراء قیاس آرائیاں اور تبصرے ہوتے رہے ہیں اور ایسے معاشروں جہاں پر علمی فکر پر زیادہ کام نہیں کیا جاتا، افواہیں زیادہ پھیلتی ہیں ۔

کرونا وبا کے پھیلنے اور اس سے بھی زیادہ تیزی سے افواہوں کے پھیلنے کے متعلق علامہ شیخ مرزا علی کہتے ہیں کہ اب تک پھیلنے والی اس بیماری یا وباء پر تحقیق کی جاتی رہی اور نام رکھا گیا لیکن یہ وباء نام کے ساتھ نمودار ہوا جس کے بعد مختلف لہروں اور ویرئنٹ(اقسام) کی پیشنگوئیاں کی جاتی رہیں اور وائرس کی ہر نئی قسم اپنے نام کے ساتھ پیدا ہو رہی ہے جس کے سبب شکوک وشبہات کا پیدا ہونا بنیادی وجہ بنی ۔

گذشتہ سال جب سے اس وائرس نے جڑیں پھیلانا شروع کیا دنیا بھر کے اجتماعات پابندی کی زد میں آئے جو رفتہ رفتہ اپنی حالت پر پلٹ آئے لیکن مسجد الحرام کی عبادات اورحج کا اجتماع اب بھی محدود ہے جس نے مذہبی حلقوں میں اس تاثر کو تقویت دی کہ اس وائرس کا ٹارگٹ مسلمان ہیں ۔

علامہ شیخ مرزا علی سمجھتے ہیں کہ جہاں پر بنیادی طور پر دینی علوم اور فکر کی کمی کم ہوں وہاں پر افواہیں زیادہ پھیلتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایسے انسانی معاشروں میں جہاں تعویذ گنڈے کا کاروبار عروج پر ہے وہاں میڈیکل اور اس سے وابستہ امور ناکام نظر آتے ہیں اس مرحلہ پر نجومیوں کاہنوں اور عاملوں نے ایسی وباؤں کے توڑ کے طور پر ورد اور وظیفہ متعارف کروانے میں جت گئے جس کے نتیجہ میں سماجی گروہ بندیاں وجود میں آنی تھی ۔

بین الاقوامی سطح پر سیاسی جنگ کو بھی شیخ مرزا علی افواہوں کا ایک مرکزی سبب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک رائے کے مطابق اس وائرس کو سرد جنگ بھی قرار دیا گیا جس نے منقسم سوچ کو تقویت دینے کیلئے بنیادی کردار ادا کیا ۔

بین الاقوامی سطح پر ممالک کے مختلف اور الگ الگ رویہ کو بھی علامہ مرزا ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے متضاد اعلامیہ اور راہنمائی کے تحت لاگو کئے جانے والے حکومتی اقدامات اور عالمی سطح پر ملکوں کو ان ہدایات پر عملدرآمد کی سختی نے بھی ابھامات کو راہ دی ۔

کورونا کے نتیجہ میں ہونے والے اموات کو سرکاری سطح پر ٹارگٹ تصور کرتے ہوئے شرح اموات میں اضافہ کی روش نے بھی شکوک وشبہات پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔

لیکن عقل و شعور کا تقاضا یہی ہے کہ وباء ہو یا بیماری احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی دین کا واضح ہے. اپنی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے علامہ شیخ مرزا علی کہتے ہیں کہ عالمی حلقوں میں زیر بحث سرمایہ کارانہ سرد جنگ جس کے پیچھے عالمی سرمایہ کاروں کی منصوبہ بندی کا عمل دخل ہے لیکن اس کے برعکس مذہبی حلقوں نے احتیاطی تدابیر پر زیادہ توجہ دی اور نہایت مدبرانہ انداز میں تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ان اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے کہ اس عالمی وباء کا نشانہ مسلمان ہیں ۔

گلگت سے تعلق رکھنے معروف عالم دین و جامعہ مسجد صدیقیہ کے خطیب مولانا مقصود احمد کہتے ہیں کہ یہ وباء مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دنیا سے آبادی کو کم کرنے کی ایک شاخ ضرور ہے۔
مولانا مقصود نے کہا کہ کرونا مسلمانوں کے خلاف نہیں البتہ دنیا سے انسانوں کو کم کرنے کی ایک کڑی ضرور ہے ، ایک بات یقینی ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کو زک ضرور پہنچی ہے کہ کرونا سے موت واقع ہوتی ہے جبکہ اسلامی عقیدہ ہے کہ کوئی بیماری نہیں مارتی بلکہ موت مارتی ہے۔۔۔ اور اللہ کا حکم مارتا ہے۔۔۔۔۔البتہ موت کا سبب بظاہر کوئی بیماری بھی ہوسکتی ہے۔

جامعہ مسجد صدیقیہ کے سابق خطیب کا مزید کہنا تھا کہ البتہ حرم شریف کی حد تک میں یہ سمجھتا ہوں کہ واقعتا بیت اللہ سے مسلمانوں کو دور کرنا اس کا ایک مقصد ہوسکتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو حرم میں ہی جمع کیا جاتا ہے اور مرکزیت قائم کی جاتی ہے۔۔۔۔اس میں پیش پیش وہاں کے مسلم حکمران ہی ہیں۔

کرونا کے پھیلاؤ پر اٹھنے والے مذکورہ سوالات پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جی بی کے صدر اور ماہر امراض قلب ڈاکٹر اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ کرونا وائرس جراثیم کا ایک پورا خاندان ہے اور اس سے پہلے بھی کرونا کے حملے ہوتے رہے ہیں جن میں MERS وغیرہ بہت مشہور رہے ہیں جو اونٹوں سے پھیلا تھا۔ ایسی کوئی بھی صورتحال پیش آتی ہے تو اس پر متعلقہ ماہرین سے ہی رائے لینی چاہئے۔ کرونا وائرس کی موجودہ لہر 2019 میں سامنے آنے کی وجہ سے کوویڈ19 کا نام دیا گیا ہے۔ کوئی بھی ایسی بیماری سامنے آتی ہے تو اس پر سائنس تحقیق کرتی ہے اور حقائق کی بنیاد پر پرکھا جاسکتا ہے۔ وائرسز کے نام رکھنے کا کام وائرولوجی ڈٰپارٹمنٹ کا ہوتا ہے اور یہ اس کی مکمل سٹیڈی کرتے ہیں پھر اقسام کی تقسیم کرتے ہیں تاکہ اس سے مقابلہ کرنے میں مدد مل سکے گی۔

شیخ مرزا علی کے بعض سوالات سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ سائنس کو دنیا کے بڑے ممالک کس طرح استعمال کرتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے، صرف خانہ کعبہ ہی بند نہیں ہوا تھا بلکہ چرچز، یہودیوں کے عبادت خانوں سے لیکر فلم ہال تک بھی بند ہوئے تھے۔عالمی قوتوں کی آپس کی چپقلش کو کسی بیماری سے انکار کا ثبوت نہیں مانا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ انسان دوست خیال رکھنے والوں کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ اقدامات اٹھائے جائیں اور ویکسین کے عمل کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں تاکہ ہر بندہ ویکسین سے مستفید ہوسکے۔ کرونا کو ماننے سے انکار کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جتنا فنڈ اس کے نام پر آتا ہے وہ غلط استعمال ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز ایوب سمجھتے ہیں کہ اب بھی ہسپتالوں میں وہ سہولیات موجود نہیں ہیں کہ مکمل علاج ہوسکے، جس کے لئے حکومتوں کو اپنے علاقوں میں ہسپتالوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے