مردانہ کمزوری اور ہمارا معاشرہ

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں قوانین چاہے اسلامی ہوں یا معاشرتی تقریبا دونوں میں ہی بڑی ” مردانگی ” کے ساتھ عورت کو ملکیتی یا برتنے کی چیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پہلو سے تضحیک کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے . انسانوں کی فکری آزادی کو سلب کر کے انھیں ذہنی مریض بنا دیا جاتا ہے اسکا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب بچپن سے ہی بچوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ عورت مردوں سے کوئی مختلف مخلوق ہے

اسکول سے ہی علیحدہ تعلیمی اداروں میں ڈال کر مخالف جنسوں کے درمیان غیر ضروری فاصلہ پیدا کر دیا جاتا ہے . یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کی جبلت میں اگر کسی چیز کی جانب کشش موجود ہے اور اسے غیر ضروری حد تک دبا دیا جاے تو انسان میں اسکی طلب مزید بڑھتی ہے اور وہ اس کے حصول میں غیر فطری طریقے اپناتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر وہ بیمار ہو چکا ہے . ہمارا معاشرہ بھی بد قسمتی سے بیمار ہو چکا ہے ، منٹو صاحب مرحوم کا ایک تاریخی جملہ ذھن میں آہ دھمکا ہے کہ
"ہمارا معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر تانگہ چلانے کی نہیں ”

ہم کیوں عورت کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں ؟؟؟ کیا اسکا قصور صرف یہ ہے کہ وہ عورت پیدا ہوئی ؟ اس معاشرے کی بے حسی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ عزت اور غیرت کے نام پر فقط عورت کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے یا مرد اس سے مستثنیٰ ہے ؟؟؟؟ ڈاکٹر علی شریعتی ایران کے مشھور مفکر گزرے ہیں کیا جملہ کہا ہے انہوں نے
"مجھے ایک عورت کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ،جب اسکی ساکھ پر دھبہ لگتا ہے تو وہ اسے مٹانے کے لئے داڑھی نہیں رکھ سکتی ”
اور پھر ہم خود کو مرد اور مسلمان کہتے ہیں !!!!

ہماری ذہنی بیماری گلی کوچوں ،چوراہوں ،شہر کی دیواروں، اور اخبار کے اندرونی صفحات پر موجود مردانہ کمزوری اور مردانہ طاقت کے اشتہاوروں کی صورت میں ہمارا منہ چڑھا رہی ہوتی ہے . بیہودگی اور فحاشی کے خلاف صف آراء ” سفید پوشوں ” کی نجی محفلوں میں کیا ہوتا ہے مجھے وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں مگر اس سے سب صرف نظر کرتے ہووے ایک اخبار میں چھپنے والے اشتہار پر طرح طرح کے تبصرے کرنے والے افراد کبھی روزانہ کی بنیاد پر اندرونی صفحات پر مرد حضرات کے لئے خصوصی طور پر مردانہ کمزوری اور جنسی لذت بڑھانے جیسے اشتہارات پر شرم محسوس کریں گے ؟؟؟؟

بیہودگی تصویر میں نہیں دماغوں اور نگاہوں میں ہے ، اپنی آنکھوں اور دماغ کو غلاظت اور گندگی سے پاک کر لیں تو نہ ان حضرات کو اس عورت کے "دم خم ” نظر نہیں اے گے اور نہ ہی وہ اسکی شہوت کا سبب بنے گے .

بیہودگی اور فحاشی کا راگ الاپنے والے لوگوں کے پاس یہ اعزاز ہے کہ دنیا میں فحش ویب سائٹس دیکھنے میں ہر سال پہلے نمبر پر آتے ہیں اور اس قدر ترسے ہووے ہیں کہ ویب سائٹس بلاک ہونے کے باوجود پراکسی سرور کے ذریع ہی "نمبر ون ” آنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے .

یہ سب لکھنے کا مقصد ہر گز بھی یہ نہیں ہے کہ کسی غیر فطری عمل کو رواج دیا جاے بلکے اسکا مقصد خود احتسابی ہے کہ ہم دوسرے کی طرف ایک انگلی اٹھا رہے ہیں تو چار کا رخ اپنی طرف ہے . عورت کو ملکیت سمجھنے کے بجاے خدا کی ایک خوبصورت تخلیق سمجھتے ہووے اسکا جائز حق اور مقام دیں اور جیسے ہم اپنے لئے شخصی آزادی چاہتے ہیں ایسے ہی انکی آزادی کو قبول کریں تا کہ یہاں ذہنی مریض پیدا ہونے کی جگہ سائنس جمالیات اور بشریت سے محبت کرنے والے انسان پیدا ہوں تا کہ چار چار سالوں کی معصوم بچیوں کے ساتھ بد کاریوں کے واقعیات پیش نہ آئیں .

مردانہ کمزوری وہ نہیں جو اشتہارات اور دیواروں پے چسپاں ہو کر ہمارا سر شرم سے جھکاتی ہے بلکے مردانہ کمزوری یہ ہے کہ ہم عورت کے وجود سے ڈرتے ہیں ، اسے تسلیم کرنے سے ڈرتے ہیں اسے عزت دینے سے ڈرتے ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے