روشن ہے جام جمشید اب بھی

گلگت بلتستان میں آج کی تاریخ تک پائی جانے والی احساس محرومی کا تذکرہ ہو تو اس محرومی کا جابجا اظہار کرنے والوں کو بھی یاد رکھا جائے گا۔ یونہی اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے مستقبل سے متعلق بیٹھکوں اور اس احساس محرومی پر اونچی عمارتوں کے احوال سے اپنے قارئین کو آگاہ کرنے بیٹھا تھا، اخبار کی خبریں مکمل ہوچکی تھی اور اسلام آباد کا ڈیسک محض آخری اسی کالم کا انتظار کررہا تھا جس کی وجہ سے خلاف معمول موبائل کو دیکھنے کی فرصت نہیں ہوئی اور تیزی سے کالم کے تکمیل کی جانب رواں ہوا، اور جونہی عبوری صوبے پر حکومتی حکمت عملی سے فراغت ہوئی ہاتھ بے ساختہ موبائل کی طرف اٹھے۔ موبائل سکرین کی چمک کے ساتھ جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو اور ہاتھ کانپنے لگ گئے، وٹس ایپ گروپوں میں جمشید خان دکھی کی رحلت کی خبریں گردش میں لگی ہوئی تھی،معلوم تھا کہ خبر مصدقہ ہے لیکن پھر بھی خود کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے خبر بھیجنے والے کو فون کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور صرف ”آہ“لکھا جاسکا۔انہیں کی زبانی کہ
رہے گی فصل گل یہ باد و باراں، ہم نہیں ہوں گے
یوں ہی ہوں گے یہاں جشن بہاراں، ہم نہیں ہوں گے
جو کرنا تھا زمانے نے، ہماری میزبانی کی
بلائے جائیں گے اب اور میزباں، ہم نہیں ہوں گے

جمشید خان دکھی صاحب کچھ عرصے سے علیل تھے اور اسلام آباد سے دوبارہ گلگت منتقل کیا گیا تھا، کسی دوست سے معلوم پڑا کہ ان کا علاج دیسی جڑی بوٹیوں سے بنے ایک دوائی سے ممکن ہے، میں نے دوائی کے لئے رابطہ کیا اور دوائی لیکر حاضری دینے کا انتظار کیا، دوائی بھی نہیں ملی اور انتظار بھی رائیگاں گیا، جس کا دکھ سینے میں شاید ہمیشہ کے لئے رہے گا۔

جمشید خان دکھی اس علاقے کے اجتماعی مسائل پر اپنی رائے رکھنے والے کب ہوئے اس کا علم نہیں کیونکہ جب سے ان کا نام سنا ہے تب سے وہ اسی مقام پر فائز تھے،لیکن سیاسی و علاقائی معاملات میں جمشید خان دکھی اس وقت منظر پر آگئے،جب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان صاحب (مرحوم)نے غالباً گلگت میں ایک جلسہ یا پروگرام کیا تھا، ان دنوں امان اللہ خان کا طوطی بولتا تھا، ان کے افکار کی کاٹ ممکن نہیں تھی،پروگرام کے بعد سوال جواب کا مرحلہ آیا تو ایک نوجوان نے سوال داغ دیا کہ آپ بنیادی طور پر جی بی سے ہیں لیکن ساری سیاسی جدوجہد کشمیر میں کرتے ہیں گلگت بلتستان میں کیوں نہیں کرتے ہیں؟اس سے قبل کہ امان اللہ خان خود یا سٹیج سے کوئی اور ا کا جواب دیتا، شرکاء میں سے ایک اور جوان کھڑا ہوگیا اور جواب کی اجازت چاہی۔ حیرت کے عالم میں ان کی خواہش پوری کی گئی اور انہیں جواب دینے کی اجازت ملی تو وہ یوں گویا ہوئے کہ ’اگر امان صاحب جیسی شخصیت اگر گلگت میں ہی ہوتی تو آج زیادہ سے زیادہ کسی فرقہ وارانہ تنظیم کے صدر ہوتے‘محفل کشت زعفراں ہوگئی مگر امان اللہ خان پروگرام کے بعد نوجوان تک پہنچ گئے جسے دنیا جمشید خان دکھی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ رفاقت بھی امان اللہ خان مرحوم کی رحلت تک یوں جاری رہی کہ امان اللہ خان جی بی میں جس کسی کو زاتی طور پر امداد کرتے وہ جمشید خان دکھی کے زریعے کرتے۔

گلگت سٹی پارک میں جب ان کا نماز جنازہ ادا کیا جارہا تھا تو میری نظریں ان کے رفیقوں کو ڈھونڈرہی تھی،امین ضیاء، عنایت اللہ شمالی، خوشی محمد طارق، شیرباز علی برچہ، غلام عباس نسیم اور سبھی قریبی احباب ’دکھی‘ تھے اور آنسوؤں کی قطار جاری تھی۔ ہر وہ شخص جو جمشید خان دکھی سے واقف تھا، اس کی زبان گنگ تھی اور کوئی لفظ زبان پر نہیں آرہا تھا۔کیسا اتفاق کہ وہ اپنے دیرینہ رفیق عبدالخالق تاج کی شینا ڈکشنری کی افتتاحی تقریب دیکھ کر ہی دار فانی سے رخصت ہوگئے۔

جمشید خان دکھی کو ہر شخص نے اپنے پسند اور سوچ کے مطابق القابات سے نوازا، کسی نے اس کی مزاحمتی شاعری دیکھی تو حبیب جالب قرار دیا تو کسی نے قومی شاعری دیکھ کر جی بی کا علامہ اقبال قرار دیا، کسی نے نعتیہ شاعری دیکھ کر انہیں علاقے کا مظفر وارثی کہا۔ان کی فطرت میں جمالیاتی شاعری نہیں تھی مگر دوستوں کے اصرار پر انہوں نے جمالیاتی شاعری پر بھی طبع آزمائی کی اور جمالیاتی مزاحمت کے پہلوؤں کو سامنے لے آئے۔ پھر مزاح کی طرف مڑ گئے تو ’تاج صاحب بھابی کو پیارے ہوگئے‘جیسے لافانی تحریروں کو اخبار میں امر کردیا۔

1956میں کشروٹ میں آنکھ کھولنے والے جمشید خان دکھی نے محکمہ جنگلات جی بی میں بطور ناظم تعلقات عامہ اپنی خدمات سرانجام دیں اور سبکدوشی کے بعد بھی محکمے کی ہر تقریب کے لازمی جزو بن گئے تھے۔شاعری اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ جمشید خان دکھی کا جو کردار ناقابل فراموش ہے وہ امن و امان کے قیام کے لئے انتھک جدوجہد کا ہے۔

جمشید خان دکھی نے شروع دن سے اپنی تمام شاعری اور تحریروں کو اپنے پاس کمپوزشدہ حالت میں محفوظ کی لیکن طبیعت ایسی چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وہ اپنی خود کی کتاب نہیں چھاپ سکے۔ شینا شاعری بھی بے شمار کی لیکن عبدالخالق تاج صاحب کی بھرپور فرمائش پر صرف ایک غزل کو بطور گانا شکیل سمین کو دیدیا جسے پذیرائی ملی۔1995سے جی بی کی ادبی تنظیم حلقہ ارباب زوق کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے اور روح رواں کا کردار ادا کیا۔جب سے اخبارات سے واسطہ پڑا کبھی حلقہ ارباب زوق کے شیڈول کو ناغہ ہوتے نہیں دیکھا اور جمشید خان دکھی کو کبھی تھکتے نہیں دیکھا۔ نہ صرف حلقہ ارباب زوق بلکہ ہر اس محفل کی نظامت کی زمہ داری جمشید خان دکھی کو نصیب ہوئی جس میں جمشید خان دکھی موجود تھے۔حلقہ ارباب زوق کے تمام مشاعروں اور محافل کی کارگزاری اب تک جمشید خان دکھی نے ہی اٹھائی اور کبھی کبھار ہمیں بھی تکنیکی معاونت کی توفیق ملی۔

گلگت بلتستان بالخصوص بدترین فرقہ وارانہ حالات اور کشیدگی میں کشروٹ سے امن کا علم بلند کرنا غیر معمولی بات تھی، پھر یوں ہوا کہ اس علم کو جمشید خان دکھی اپنا مقصد حیات بناگئے اور آخری دم تک غلطی سے بھی ان کے زباں سے ایسافقرہ نہیں نکلا جس سے کسی کی دل آزاری بالخصوص کسی بھی مکتبہ فکر کی۔

جس زمانے میں گلگت ’دو بلاکس‘ میں مکمل تقسیم ہوا اور ہر فرد کے چہرے پر ان کے ’بلاک‘ کا نام عیاں ہوتا تھا اس وقت جمشید خان دکھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ امن کانفرنسز کا انعقاد کراتے پھررہے تھے، اس فرقہ وارانہ راکھ میں جمشید خان دکھی امن کی وہ چنگاری تھے جس کی تپش نے علاقے کو آگ وخون میں جھونکنے والوں کو شکست فاش دیدی۔

ان کی شاعری کا بڑا حصہ ’تعصب‘ نے گھیر لیا، ہر موضوع مضمون میں تعصب کے خلاف لڑتے لڑتے یہاں تک پہنچ گئے کہ ’میں کافر ہوں اگر اسلام یہ ہے‘ کا نعرہ مستانہ بلند کردیا۔جمشید خان دکھی سے ہونے والی آخری ملاقاتوں میں بھی ان کو علاقائی غم اور دکھ درد میں پایا، وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر سے دور کرکے ہمارے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔انہوں نے جابجا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے نئے سال کی آمد، جشن بہاراں، نوروز، ائمہ کرام سے عقیدت، بین المسلکی ہم آہنگی، یوم حسین، مشرق مغرب شمال جنوب، آئینی حقوق، بنیادی حقوق، ریاستی پالیسیوں غرض ہر موضوع پر طبع آزمائی کی اور ہر موضوع نے اپنا مقام حاصل کرلیا۔

ان کی ادبی خدمات میں ذاتی شاعری کے علاوہ ’مولانا راجی الرحمت نظر‘، محمد حسن شاد فن و شخصیت، شمالی علاقہ جات کا ثقافتی انسائیکلوپیڈیا(گلگت)، گلگت بلتستان کا اردو ادب (حصہ نثر)، پروفیسر عثمان علی ایک نامور مورخ، جیسی تصنیفات شامل ہیں۔

ہمیں اور ہماری حکومت کو اب یہ روش ترک ہی کرنی ہوگی کہ کسی کی رحلت کے بعد ان کے خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ یہ خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں بھی ہوسکتا تھا، دکھی صاحب کو ایک بار صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا مگر تاحال نہیں مل سکا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے