غیر فعال خاندانوں کی چند مثالیں اور آپ کی آراء

[pullquote]محفوظ بچپن : "قسط نمبر5″[/pullquote]

پچھلی قسط میں ہم نے جائزہ لینے کی ایک اپنی سی کوشش کی تھی کہ غیرفعال خاندانی نظام کس طرح کے ہوتے ہیں اور بچے اس سے کیسے متاثر ہوتے ہیں۔ اور یہی بچے بڑے ہوکر کیسے منفی سوچوں، پیچیدہ باہمی تعلقات اور معاشرتی برائیوں کا باآسانی نشانہ بن سکتے ہیں۔ یا ان کی زندگی میں خوشیوں کی کمی یا گھٹن کی فضا بنی رہتی ہے۔ اس کے بارے میں قارئین کی آراء بھی موصول ہوتی رہی، چند ایک نے نجی سطح پر اپنی زندگی کی کہانی بھی سنائی۔ اور کچھ نے اجازت بھی دی کہ نام ، مقام بدل کر ان کے حالات کا خاکہ لکھ دوں،ہو سکتا ہے کسی اور کی زندگی میں بہتر رہنمائی مل سکے۔ ان میں کچھ تو کلاسیک روائتی کہانیاں ہیں۔ جیسے والدین کی طلاق کے بعدمشکل صورت حال یا، والدین میں سے کسی ایک کی وفات کے بعد دادی یا نانی وغیرہ کے ساتھ پرورش۔ لیکن چند کہانیاں بظاہر سب نارمل معمولات میں چھپی ہوئی عدم اعتماد کی وجہ سے بنیں۔

[pullquote]والدین میں مسابقت: [/pullquote]

میری عمر محض دو یا تین سال رہی ہوگی جب مجھے معلوم ہو گیا تھا، میری والدہ مجھے دیکھ کر خوشی محسوس نہیں کرتیں۔ وہ سمجھتی ہیں میں ایک بوجھ ہوں جو ان پر زبردستی لادا گیا ہے۔ وہ شادی سے پہلے ایک بینک میں اچھی نوکری کر رہی تھیں۔ دفتر کے ایک ساتھی سے ہی انھیں محبت ہو گئی۔ کچھ عرصے تک دونوں نے اس تعلق کو چھپا کر رکھا مگر جلد ہی دفتر میں چہ مگویاں ہونے لگیں۔ اس لئے والد نے میری امی سے کہا کہ وہ نوکری چھوڑ دیں، اور پھر جلد ہی انھوں نے شادی کرلی۔ محض ایک سال میں وہ والدین بھی بن گئے۔ والد نے اس دوران اپنی نوکری کی روٹین برقرار رکھی۔ مگر امی کی زندگی بالکل ہی بدل گئی تھی۔ وہ بس گھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔ ان کے پاس علیحدہ گھر تھا، خوشحالی تھی، ایک بچی بھی تھی۔ مگر انہیں لگتا تھا وہ قید ہیں۔ وہ واپس نوکری پر جانا چاہتی تھین۔

مگر بچے کو کس کے پاس چھوڑتیں۔ بحر حال جب میں اسکول جانے لگی تو امی نے دوبارہ نوکری کی کوششیں شروع کیں۔مگر اب انہیں پہلے والی پوزیشن پر کام نہیں مل رہا تھا۔ پانچ سال میں ان کی جگہ کئی ایک نئی لڑکیاں آ چکی تھیں۔جبکہ ابو کو مسلسل ترقی میل رہی تھی، وہ دفتر میں کامیاب تھے۔ مگر گھر پر انہیں طعنے سننے پڑتے تھے کہ انہوں نے امی کی زندگی تباہ کردی ہے۔ امی ہر وقت اپنا مقابلہ ابو سے کرتیں، ان کی تنخواہ کا موازنہ، ان کے کپڑوں، جوتوں ، گھڑی کی قیمت وغیرہ۔ ابو کی فظرت میں لاپرواہی تھی، وہ زیادہ وقت بینک کو دیتے، گھر والوں کے ساتھ رسمی ملاقات کا تعلق رہ گیا تھا۔ انہیں مزید بچوں کی خواہش بھی نہیں تھی۔ میں نے ہمیشہ ایک تنہا زندگی گزاری ہے، میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے حسد محسوس کرتی ہوں،ہم بظاہر ایک خوش باش خاندان ہیں، مگر اب جب کہ مجھے شادی کا فیصلہ کرنا ہے تو میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں۔

[pullquote]والد کی اچانک بےروزگاری: [/pullquote]

ہم تین بہن بھائی ہیں،والد صاحب ایک بہترین بین الاقوامی ادارے سے منسلک تھے،ہم تقریبآ دس سال تک ڈیڈی کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں گھومتے رہے۔ ہم نے یورپ میں بھی کچھ وقت گذارا۔ پھر اچانک ڈیڈی کی جاب ختم ہو گئی۔ وہ اس صدمے کو سہہ نہیں پائے اور بیمار پڑ گئے۔ ہماری ددھیال نے ہمیں کوئی مدد نہیں دی، یا شاید ممی نے ان سے مدد طلب ہی نہیں کی۔ وہ ڈیڈی کو ساتھ لے کر اپنے میکے آگئیں۔ نانا جان کا وسیع کاروبار تھا، گھر بڑا تھا، روپے پیسے کی ریل پیل تھے، بظاہر نانا جان نے امی کو واپس قبول کر لیا۔ مگر گھر کے اندر اب ان کا پہلے والا رتبہ نہیں رہا تھا۔ ان کے چھوٹے بہن بھائی ممی کو یہ احساس دلاتے رہتے تھے کہ وہ ایک بوجھ ہیں۔ امی کچھ شرمندہ سی رہنے لگیں، انہوں نے گھر بھر کی تمام ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔

وہ بچوں اور شوہر کو بھول کر دوسروں کو کام کرتی رہتیں۔ ان کے پاس اپنے بچوں کے لئے نا تو وقت بچتا تھا اور نا ہی ہمت رہتی تھی ۔ ڈیڈی نے ان حالات میں بالکل بھی ممی کا ساتھ نہیں دیا۔اور بیماری میں اتنے مبتلا نہیں تھے جتنا انہوں نے واویلا کیا،پھر بس اپنے بھائی کے گھر چلے گئے۔ ممی کو ہماری پڑھائی جاری رکھنے کے لئے نانا جان سے پیسے نہیں ملے تو انہوں نے مجبوری میں ایک چھوٹا ٹیوشن سنٹر کھول لیا۔ جو بعد میں اکیڈمی اور پھر اسکول بن گیا۔ بظاہر حالات قابو میں تھے، کیونکہ ہم تینوں اب ممی کی مدد کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ لیکن ہماری شخصیات میں ڈراڑیں ہیں۔ ہم بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں۔ ضدی ہیں، اور ہمیں رشتوں پر اعتبار بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم آپس میں بات نہیں کرتے مگر ہمیں جسمانی، ذہنی اور جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، ہمارے قریبی سگے رشتہ داروں نے ہمارا فائدہ اٹھایا اور ہم بہت بے بس محسوس کرتے رہے۔ہم ممی کو کبھی قصوروار سمجھتے ہیں، تو کبھی مظلوم۔ ڈیڈی کی خبر ان کے مرنے کے بعد ملی، ہم آج تک انہیں بھی معاف نہیں کر سکے۔

[pullquote]والد کے روئیے نے میری طلاق کروا دی: [/pullquote]

میرے والدین کے درمیان محبت ہے، اور آج تک ہے۔ بس وہ شادی کے چند سال تک اکٹھے رہے پھر علیحدہ ہو گئے۔ نا ان میں طلاق ہے، نا ہی ناچاقی۔ بس وہ اکٹھے نہیں رہتے۔ بابا گاؤں میں زمینوں پے رہتے ہیں۔ اور اماں میرے ساتھ شہر میں۔ بابا کے پاس زمینیں ہیں، مزارع ہیں اور اماں کے پاس بچے۔ میں نے اپنی اوائل عمری مٰن دیکھا، بابا اماں کو کبھی خود سے کچھ نہیں دیتے تھے، جب تک کہ اماں باقاعدہ مانگ نا لیں۔

جیسے گھر کا خرچ، بچوں کی فیس یا کسی خوشی غمی میں آنے جانے کے لئے زاد راہ۔ وہ پیسے دیتے وقت احسان جتانا بھی نہیں بھولتے تھے۔ اور آہستہ آہستہ اماں نے انہیں کہہ کر پیسے لینا بند کر دیا تھا۔ وہ چھوٹی ضرورتوں کو نظرانداز کرنے لگ گئیں تھیں، اور بچوں کے جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے پر زور دینے لگیں تھیں۔ کم عمری میں ہی ہم سب بہن بھائی کام کرنے لگ گئے۔ اور اماں کو گھر کا خرچ دینے لگے۔ بس اماں بیٹوں مے معاملے میں بہت حساس ہو گیئں تھیں، ان پر حق ملکیت جتانے لگیں۔ اور اٹھتے بیٹھتے وہ یہ باور کروانا نہیں بھولتیں تھیں کہ انہوں نے ہمیں اکیلے پالا ہے۔ جب کہ بابا اب ہماری ضرورت محسوس کرنے لگے تھے۔

اسی دوران میری شادی ہو گئی۔ رشتے کرتے ہوئے اماں اور بابا اکٹھے گئے اور ایک بہترین روائیتی خاندان کا تاثر دیا، بابا نے اپنے زمینوں کا تذکرہ کیا تو اماں نے اپنی بے مثال محبت اور بچوں کی تعلیم کےلئے شہر میں رہنے کی قربانی کا ذکر۔ لڑکی والے مطمئن ہو گئےکی خاندان شریف ہے۔ لیکن میں نے گھر میں والد کو دیکھا ہی نہیں تھا کہ معلوم ہوتا شوہر کیسے گھر کو بناتے ہیں۔ ادھر اماں اور بہو میں تکرار رہنے لگی۔ میری اولاد بھی ہو گئی مگر گھر کا ماحول شدید کشیدہ رہتا تھا۔ میری مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا، مگر بابا کچھ بغیر کہے دینے کے روادار نہیں تھے۔ بیوی کو چند سال میں اندازہ ہو گیا کہ گھر کے اندر کتنی بڑی خلیج قائم ہے۔ اس نے اماں کی زیادتیوں کو سہنے کے بجائے میری پناہ چاہی، مگر میں تو خود خالی تھی اس کو کیسے تسلی دیتا۔ وہ خلع لے کر چلی گئی۔اور جاتے ہوئے بچے بھی ساتھ لے گئی۔

یہ تین کہانیاں ہمارے ارد گرد ہی موجود ہیں،ان جیسی اور بےشمار ہوں گی۔ بات محفوظ بچپن سے شروع ہوئی تھی اور بڑوں تک آگئی۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا، بچوں کو اگر خوشحال، محفوظ ، محبت بھرا اور متوازن بچپن نا ملے تو ان کی تمام عمر مشکل کا سامنا رہتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے