بدقسمتی کہیے یا تعلیم و شعور کا فقدان پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں آئے دن خواتین کا جنسی و سماجی استحصال کیا جاتا ہے۔ خواتین کو ان جرائم کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے جو انہوں نے کبھی کیے ہی نہیں۔ دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ ، جب کہ خواتین کی تعداد 10 کروڑ 13 لاکھ تھی۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مردوں اور خواتین کی تعداد تقریبا برابر ہے۔ اس کے باوجود خواتین کو مردوں کے برابر ترقی کے مواقع میسر نہیں۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی ان میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت انتہائی کم ہے۔انہیں ملنے والی اجرت بھی مردوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ تو کیا کبھی خواتین کے مسائل کسی نشریاتی ادارے پر نشر ہونے والے ڈراموں یا شوز کا حصہ بنے ہیں۔
پاکستان کے پہلے سرکاری چینل کی نشریات کا آغاز 26 نومبر 1964 میں کیا گیا اس دور میں اس چینل نے مردوں سمیت خواتین کو درپیش بہت سے مسائل کو اپنی نشریات کا حصہ بنایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی نجی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا۔ جن میں تفریحی چینل سر فہرست ہیں۔ رات آٹھ سے لیکر 11 بجے تک کے پرائم ٹائم میں کئی ڈرامے نشرکیے جاتے ہیں اور صبح آٹھ سے دس کئی مارننگ شوز بھی ان چینلز کی نشریات کا باقاعدہ حصہ ہیں۔
ان تمام نشریات کی توجہ گھروں میں موجود خواتین ہی ہوتی ہیں لہذا ان کے اوقات کار کو اسی طرح ترتیب دیا گیا ہے جس میں عموما گھروں میں موجود خواتین اپنے کام نمٹا کر فارغ ہوچکی ہوتی ہیں۔ اس ٹی آر پی کی گیم میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے خواتین کے حساب سے ان کے اوقات کار تو ترتیب دے دئیے گئے لیکن ان کے موضوعات ایسے رکھے جاتے ہیں اور ان میں ایسا مرچ مصالحہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ خواتین کی تفریح کے نام پر معاشرے میں مزید بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ کبھی ان پروگراموں میں شادیاں کروائی جاتی ہیں، کبھی میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کی وہ پیچیدگیاں دکھائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا تو کبھی مارننگ شوز میں ڈھول ڈھمکے کے ذریعے ٹی آر پی بٹوری جاتی ہے۔
حال میں سوشل میڈیا پر ان میں سے کئی ڈراموں کے مواد پر خواتین کی جانب سے اعتراض بھی اٹھایا گیا جن میں مارننگ شوز کا مواد سرفہرست تھا۔ آٹھ سے دس کے ایک مخصوص مارننگ شو میں ساس بہو کا جھگڑا کروایا گیا جس کا بظاہر مقصد ٹی آر پی ہی تھا۔ اس شو کے متعلق سوشل میڈیا پر خواتین کا کہنا تھا کہ ہمیں زندگی میں کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں جن پر بات کرنے کی بجائے یہ مارننگ شوز ایسا مواد نشرکر رہے ہیں جن سے صرف ان کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔
ان سب مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘اور لائف’ نے خواتین کے مسائل کو سامنے لانے کی ایک کاوش کی ہے۔ اس کاوش کے تحت اور لائف کے ہدایت کارنے ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو گپ شپ پرمبنی پروگرام پر مدعو کیا جائے گا اور گرم چائے کی پیالی کے ساتھ ان سے ان کی زندگی، ان کے مسائل اور ان کی ترجیحات پر بات کی جائے گی۔ اس پروگرام کی خاصیت یہ ہوگی کہ اس میں خواتین سے دریافت کیا جائے گا کہ ‘وہ کیا چاہتی ہیں’ انہیں کیا پسند ہے کیا نا پسند آج وہ زندگی کے جس مقام پر ہیں یہاں پہنچنے کے لیے کتنی قربانیاں دینی پڑی اور آئندہ آنے والے زندگی سے ان کی کیا توقعات ہیں۔
اس پروگرام کی ایک اور خاص بات یہ ہوگی کہ اس میں صرف میڈیا سے تعلق رکھنے والی یا مشہور شخصیات کو ہی مدعو نہیں کیا جائے گا بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین اس پروگرام کا حصہ ہوں گی جن کی زندگی دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔یہ پروگرام ان خواتین کی زندگی کی تلخ و شیریں کہانیوں، ان کی زندگی کے کارناموں، ناکامیوں اور ہر اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے جس دیکھنے والے محظوظ بھی ہوں گے اور سیکھیں گے بھی۔
چائے اور گپ شپ پروگرام کی میزبان سونیا لودھی اس پروگرام کو لے کر خاصی پرجوش ہیں۔ سونیا اس سے پہلے بہت سے پروگراموں کی میزبانی کر چکی ہیں۔ وہ ذاتی طور پر ایک اتالیق بھی ہیں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو لیکر خاصی پرعزم بھی ہیں۔ سونیا کی ذات اتنی نرم دل اور پرکشش ہے کہ وہ خواتین سے ان کے دل کی باتیں جانیں گی اور ان کو درپیش مسائل پر کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے ان کی دل جوئی بھی کریں گی۔ چائے اور گپ شپ ہر لحاظ سے ایک منفرد شو ہوگا۔