چینی صدر شی جنپنگ کا امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ویڈیو کال پر رابطہ

گزشتہ روز 18 مارچ کی شام کو چینی صدر ژی جنپنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ویڈیو کال کی۔ چینی صدر ژی جنپنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن کے مابین ویڈیو کال ہر یہ رابطہ آمریکی صدر کی جانب سے درخواست پر کیا گیا۔اس موقع پر دونوں صدور نے چین امریکہ تعلقات کے بارے میں واضح اور موجودہ حالات کے تناظر میں بالخصوص یوکرین کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ 50 سال پہلے، امریکہ اور چین نے شنگھائی کمیونیک کو جاری کرنے کا اہم انتخاب کیا تھا۔ پچاس سال بعد، امریکہ اور چین کے تعلقات ایک بار پھر نازک دوراہے پر آ گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین یہ باہمی تعلقات کس طرح پروان چڑھتا ہے وہ 21ویں صدی میں دنیا کے حالات کو تشکیل دے گا۔

بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ چین کے ساتھ کسی بھی طرح سے نئی سرد جنگ کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کا مقصد چین کے نظام کو تبدیل کرنا نہیں ہے۔ اور امریکی اتحادیوں کی بحالی کسی طور سے بھی ہدف چین پر نہیں ہے۔

مزید برآں امریکی صدر نے اپنے چینی ہم منصب پر واضح کیا کہ امریکہ "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہیں کرتا؛ اور اس کا چین کے ساتھ کسی بھی تنازعہ کو طول دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

امریکہ چین کے ساتھ واضح بات چیت اور قریبی تعاون کے لیے تیار ہے، ون چائنا پالیسی پر کاربند رہے، اور تعلقات کی مستحکم ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مسابقت اور اختلافات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کا خواہاں ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ اور چین کے تعلقات کی سمت طے کرنے کے حوالے سے بھی صدر ژی جنپنگ کے ساتھ قریبی رابطے میں رہنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔

صدر شی نے گزشتہ نومبر میں اپنی پہلی ورچوئل میٹنگ کے بعد سے بین الاقوامی منظر نامے میں ہونے والی نئی اہم پیش رفت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ امن اور ترقی کے مروجہ رجحان کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ دنیا موجودہ چیلنجرز کے پیش نظر نہ تو پرسکون ہے اور نہ ہی مستحکم۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور دنیا کی دو سرکردہ معیشتوں کے طور پر، چین اور امریکہ کو نہ صرف اپنے تعلقات کو صحیح راستے پر آگے بڑھانا چاہیے بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور عالمی امن و سکون کے لیےاپنا زمہ درانہ کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔

صدر ژی جنپنگ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اور صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کا احترام کرنے، امن کے ساتھ ساتھ رہنے اور تصادم سے گریز کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کہ دونوں فریقوں کو ہر سطح اور تمام شعبوں میں رابطے اور بات چیت کو بڑھانا چاہیے۔

ژی جنپنگ نے مزید کہا کہ چین امریکہ کی جانب سے ان ریمارکس کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے جیسے امریکی صدر جو بائیڈن نے ابھی اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ نئی سرد جنگ، چین کے نظام کو تبدیل کرنے یا چین کے خلاف اتحاد کو بحال کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے، اور یہ کہ امریکہ "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ تصادم کا ارادہ رکھتا ہے۔

صدر ژی جنپنگ نے نشاندہی کی کہ چین-امریکہ تعلقات، پچھلی امریکی انتظامیہ کی طرف سے پیدا کی گئی مشکلات سے نکلنے کے بجائے، موجودہ حالات کے چیلنجز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سامنا کر رہے ہیں۔ خاص طور پر قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ میں کچھ لوگوں نے "تائیوان کی آزادی” کے پیش نظر فورسز کو غلط اشارہ بھیجا ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ تائیوان کے سوال کو غلط طریقے سے نمٹانے سے دوطرفہ تعلقات پر اثر پڑے گا۔

چین کو امید ہے کہ امریکہ اس مسئلے پر بھرپور توجہ دے گا۔ چین امریکہ کی موجودہ صورتحال کی براہ راست وجہ امریکہ کی طرف سے کچھ لوگوں نے دونوں صدور کی طرف سے مثبت اور اہم مشترکہ مفاہمت پر عمل نہیں کیا اور صدر بائیڈن کے مثبت بیانات پر عمل نہیں کیا۔ امریکہ نے چین کے اسٹریٹجک ارادے کو غلط سمجھا اور غلط انداز میں اسے سمجھا گیا ہے ۔

چینی صدر ژی جنپنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات رہے ہیں اور رہیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسے اختلافات کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ مسلسل بڑھتا ہوا رشتہ دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔

چین اور امریکہ نے یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر بائیڈن نے امریکی موقف کی وضاحت کی، اور صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے چین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیاری کا اظہار کیا۔

صدر ژی جنپنگ نے نشاندہی کی کہ چین یوکرین کی صورت حال کو اس حد تک آنے کے لیے نہیں دیکھنا چاہتا۔ چین امن کا حامی ہے اور جنگ کی مخالفت کرتا ہے۔

یہ چین کی تاریخ اور ثقافت سے بھی واضح ہے کہ چین ہر معاملے کی خوبیوں کی بنیاد پر آزادانہ طور پر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ چین بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔ چین اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل پیرا ہے اور مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے وژن کو فروغ دیتا ہے۔ یہ وہ اہم اصول اور عوامل ہیں جو یوکرین کے بحران کے حوالے سے چین کے نقطہ نظر کو تقویت دیتے ہیں۔

چین نے یوکرین میں انسانی صورت حال پر چھ نکاتی اقدام پیش کیا ہے، اور یوکرین اور دیگر متاثرہ ممالک کو مزید انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔

تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ روس اور یوکرین کی مشترکہ طور پر بات چیت اور گفت و شنید میں مدد کریں جس کے مثبت عوامل برآمد ہوں گے اور امن کی طرف لیجانے کا باعث ہونگے۔

امریکہ اور نیٹو کو بھی روس کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تاکہ یوکرین کے بحران کے بنیادی عوامل کو حل کیا جا سکے اور روس اور یوکرین دونوں کے سیکورٹی خدشات کو کم کیا جا سکے۔

چینی صدر ژی جنپنگ نے زور دے کر کہا کہ ایک طرف COVID-19 سے نمٹنے اور دوسری طرف معیشت اور لوگوں کے روزگار کے تحفظ کی ضروریات کے پیش نظر دنیا بھر کے ممالک کے لیے چیزیں پہلے ہی بہت مشکل ہیں۔ دنیا کے بڑے ممالک کے لیڈران کے طور پر، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عالمی ہاٹ سپاٹ مسائل کو کس طرح مناسب طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی استحکام اور اربوں لوگوں کے کام اور زندگی کو کیسے بہتر اور معیاری کیا جا سکتا ہے۔

بیجا سختیاں اور اندھا دھند پابندیاں صرف عوام کو تکلیف میں ڈالیں گی۔ اگر اس میں مزید اضافہ ہوا، تو وہ عالمی معیشت، و تجارت، مالیات، توانائی، خوراک، اور صنعتی اور سپلائی نیٹ ورکنگ میں سنگین بحرانوں کو بڑھانے کا سبب ہوگا جو پہلے سے زوال پذیر عالمی معیشت کو مفلوج کر سکتے ہیں اور ناقابل تلافی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں۔

صورتحال جتنی زیادہ پیچیدہ ہوگی، اسی طرح بقدر تمام قیادت کو خود کو پر سکون رکھنے اور عقلی تقاضوں پر عملدرآمد کی ضرورت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ حالات جیسے بھی ہوں، امن کے لیے جگہ پیدا کرنے اور سیاسی تصفیے کے لیے گنجائش چھوڑنے کے لیے ہمیشہ سیاسی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ دو چینی کہاوتیں ہیں، "تالیاں بجانے میں دو ہاتھ لگتے ہیں۔”

"جس نے گھنٹی کو شیر سے باندھا ہے اسے اس گھنٹی کو اتارنا ہو گا۔” یہ ضروری ہے کہ اس میں شامل فریق سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں اور فوری اور طویل مدتی عوامل کیساتھ دونوں ضروریات کے پیش نظر مناسب تصفیہ تلاش کریں۔ دوسری جماعتیں اس مقصد کے لیے حالات پیدا کر سکتی ہیں اور مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں زمہ درانہ انداز میں۔

اہم ترجیح بات چیت اور مذاکرات کو جاری رکھنا، شہری ہلاکتوں سے بچنا، انسانی بحران کو روکنا اور جلد از جلد دشمنی ختم کرنا ہے۔ ایک پائیدار حل یہ ہو گا کہ بڑے ممالک ایک دوسرے کا احترام کریں، سرد جنگ کی ذہنیت کو مسترد کریں، بلاک تصادم سے گریز کریں، اور قدم بہ قدم خطے اور دنیا کے لیے ایک متوازن، موثر اور پائیدار سکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دیں۔

چین امن کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہا ہے اور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔

دونوں صدور نےاس موقع پر اتفاق کیا کہ ویڈیو کال تعمیری امر ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیموں کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر فالو اپ کریں اور چین-امریکہ کے درمیان ٹھوس اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن کرنا، اور یوکرین کے بحران کے مناسب حل کے لیے متعلقہ کوششیں تیز کرنے کے حوالے سے بھی دونوں اطراف سے کوششیں تیز کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے