چین میں گزرے 14 برس کا قصہ : روداد سفر (حصہ بارہ )

ایڈیٹر نوٹ

شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .

سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم

چائنا کا شہر ایوو ( yiwu ) ایک بین الاقوامی شہر ہے ۔ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ آپ کو یہاں مل جائے گا اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک ہر قوم کے مسلمان یہاں آتے جاتے رہتے ہیں ۔ یہی تنوع آپ کو مسلک میں بھی ملے گا ۔ مالکی اور زیدی شیعہ زندگی میں پہلی مرتبہ یہیں دیکھے اور ان کے ساتھ نماز بھی پڑھنے کا موقع ملا ۔ میں ایک دن Hong Lu ہوٹل کی چھوٹی سی چھپر مسجد میں ظہر کے وقت جلدی پہنچ گیا، مجھے مارکیٹ جانا تھا لیکن ارادہ تھا کہ باجماعت نماز پڑھ کر ہی نکلوں گا ۔ امام صاحب ایک چھوٹے قد کے shandong صوبے کے چائنیز مسلمان تھے، ان کا معروف نام ابوبکر تھا ۔ گورنمنٹ کے کاغذات میں کچھ اور ہوگا ۔یہاں پر سب مسلمانوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ ان کا ایک نام عربی میں ہوتا ہے اور دوسرا گورنمنٹ پیپر پر چائنیز نام ۔امام صاحب وضو کر رہے تھے کہ مجھے کہا کہ اذان دے دیں ۔ میں نے اذان دی اور وہیں بیٹھ گیا ۔ ایک عراقی بھائی آئے اور میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ نماز کے دوران انہوں نے شیعہ مسلک کے مطابق ہاتھ کھول کر باجماعت نماز پڑھی ۔

ایوو شہر میں ایسے کئی مصلے موجود ہیں ، جہاں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ مسلمان جس آبادی میں رہائش رکھتے ہیں ، کسی نہ کسی فلیٹ میں نماز باجماعت کا اہتمام ضرور کرلیتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک مصلہ ایک آبادی چھاؤ تونگ میں بھی تھا ، جہاں کافی تعداد میں پاکستانی رہائش پذیر تھے ۔ رمضان میں ایک دن میں نے ظہر کی نماز وہاں پڑھی ۔ امام صاحب نے امامت کرائی اور نماز کے بعد فضائل اعمال کتاب نکال کر بیان کرنے لگے ۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عراق میں ایک لڑکا رہتا تھا جس نے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا اور وہ سوکھ کر تیلا بن گیا وہ ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا تھا پھر ایک دن مر گیا ۔ کسی کے خواب میں آیا تو جنت میں گاؤ تکیہ لگائے بیٹھا تھا اور طرح طرح کے میوے اس کے سامنے موجود تھے ۔ میں نے امام صاحب سے پوچھا کہ کیا دنیا میں موجود کھانے کی چیزوں کو خدا کی نعمتوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لڑکے نے اللہ کی ان نعمتوں سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ طیب چیزیں کھاؤ پیو ، میرا شکر ادا کرو اور سرکشی نہ کرو ۔ آپ یہ اسلام بیان کر رہے ہیں یا ہندو یوگا ؟ میرے اس تبصرے سے وہ قدرے ناراض ہو گئے ۔ بہرحال جو سوال میرے دل میں تھا وہ میں نے کر دیا ۔ میں دل میں بات رکھ کر کڑھتا نہیں رہتا ۔

ایوو ( yiwu ) شہر میں جمعہ کی نماز کےلیے ایک بہت بڑی مسجد ہے ۔ جمعہ والے دن ہزاروں کی تعداد میں نمازی وہاں موجود ہوتے ہیں ۔ کسی مسلمان کو اس علاقے میں تلاش کرنا ہو اور وہ مل نہ رہا ہو تو جمعہ والے دن اس مسجد میں ضرور مل جاتا ہے ۔ یہ مسجد اصل میں ایک بند پڑی فیکٹری تھی جسے گورنمنٹ نے مسلمانوں کو نماز کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ یہاں چائنا کے ہر خطے کا مسلمان بھی مل جاتا ہے ۔ اس مسجد میں عورتوں کےلیے علیحدہ حصہ مختص ہے ۔ مسجد اونچی جگہ پر ہے اور اردگرد پارکنگ اور لان سا بنا ہوا ہے ۔ مسجد کے باہر سڑک کنارے فٹ پاتھ پر کھانے پینے کی اشیا کے سٹال لگائےجاتے ہیں اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ ایک مرتبہ اس مسجد کی رینوویشن کروائی گئی۔ مین ہال کو سجایا گیا اور کچھ اضافی واش روم اور ایک کچن بھی بنایا گیا ۔ رمضان میں سحری اور افطاری کا انتظام بھی مسجد میں ہوتا ہے ۔

جو چاہے آئے اور بلا روک ٹوک مسجد میں سحری و افطاری کرسکتا ہے ۔ رمضان میں خاص طور پر چائنیز مسلمان بیوی بچوں سمت آتے ہیں اور افطاری یہیں کرتے ہیں ۔ مسلمان عورتیں بھی بلاجھجک مسجد میں جمعہ والے دن آتی ہیں ۔ چائنیز کاروباری اشخاص اپنے بزنس بروشرز مسجد کے گیٹ پر بانٹ رہے ہوتے ہیں ۔

خدا کی طرف سے ہم مسلمانوں کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ ایک سخت گیر حکومت میں بھی ہم آزادی کے ساتھ لوگوں کے سامنے اسلام کو پیش کر سکتے ہیں ۔ یہاں چونکہ تمام ہی مسلمان موجود ہوتے ہیں ، اس لیے ڈیفالٹرز سے ریکوری کے لیے بھی کچھ لوگ یہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے عرصہ ہوا مارکیٹ یا کسی فیکٹری کے پیسے دینے ہوتے تھے اور غائب ہو جاتے ان کی تلاش میں فیکٹری یا مارکیٹ والے مسجد کے باہر موجود ہوتے تھے ۔

ایک مرتبہ اس مسجد کے ساتھ ایک بڑا حادثہ ہوا ، وہ یہ کہ لوگوں کے خیال میں مسجد کمیٹی کے جو لوگ کل سائیکلوں پر تھے ، وہ مسجد کی تعمیر نو کے بعد بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن گئے ۔ پھر مسجد پر قبضے کا جھگڑا بھی شروع ہوگیا ۔ امام جمعہ کی نماز کےلیے کھڑے تھے کہ مخالف گروہ نے جھگڑا شروع کر دیا اور نماز نہیں پڑھانے دی ۔ ایک مصری مسلمان نے آگے بڑھ کر امامت کروائی اور بعد میں اعلان کیا کہ یہ لڑنے کی جگہ نہیں ہے ، باہر جا کر لڑیں ۔ بہرحال یہ تمام بیماریاں جو ہمارے ہاں موجود ہیں ، وہاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ یہاں تو یہ معمول کی بات ہے لیکن وہاں اس لیے زیادہ تشویش ناک ہیں کہ وہاں غیر مسلموں نے کبھی ہر ہفتے اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا اور اجتماع بھی ایسا کہ دنیا کے ہر رنگ و نسل اور زبان والا ایک ہی امام کے پیچھے کھڑا ہے اور رش اتنا ہوتا کہ ٹریفک پولیس خاص طور پر آتی اور نمازیوں کی سہولت کےلیے مسجد کے سامنے کی روڈ ٹریفک کےلیے بند کر دیتی اور نمازی اتنی بڑی تعداد میں ہوتے کہ سڑک پر بھی نماز ادا کرتے ۔ یہ ان لوگوں کے سامنے اسلام کا پہلا زندہ تعارف تھا اور پھر قبضے کی لڑائی بھی ان کے سامنے تھی ۔ اسلام کا یہ تعارف ایسا ہے کہ بعض اوقات مجھے خوف آتا کہ اگر چائنا کے یہی غیر مسلم ہی قیامت والے دن یہ مقدمہ لے کر کھڑے ہو گئے کہ اسلام کے نمائندے تیرے دین کا یہ کیسا تعارف پیش کرتے رہے ، تو ہم کیا جواب دیں گے ؟

یہاں عرب تاجروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں سے چائینیز مسلمان نوجوان ان کی ترجمانی کرنے کےلیے ایوو آ کر رہائش پذیر ہو گئے ۔ کیونکہ اس طرح یہاں انہیں آسانی سے روزگار بھی مل جاتا ہے ۔ ان میں لڑکے اور لڑکیاں سبھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انگلش ، فارسی اور ترکش بولنے والے بھی ہیں ۔ ایسے شارٹ کورسز بھی چائینز کو کروائے جاتے ہیں جن سے وہ دیگر زبانوں میں عام بول چال کے الفاظ سیکھ سکیں ۔ بعض پاکستانیوں کے ساتھ رہتے ہوئے اردو کے بھی بہت سے الفاظ بول لیتے ہیں ۔ گوانزو شہر میں ایک لڑکی کا دوست سکھ تھا ، وہ ٹھیٹھ پنچابی بھی بول لیتی تھی ۔ بہت سے لوگوں نے یہاں مقامی عورتوں سے شادیاں کی ہیں ۔ لیکن اس سے علیحدہ مسائل پیدا ہو گئے کہ ان کی آئندہ نسل کہاں جائے گی ۔ سکولوں میں وہی گورنمنٹ کی تعلیم جو کیمونزم کی ہے اور وہ مسلمان ۔ سکولوں میں لنچ ٹائم میں کھانے کا بڑا مسئلہ ہے ، بہرحال زندگی ایسے ہی چل رہی ہے۔ کلچر اور سوچ کے فرق کی وجہ سے گھروں میں بھی بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

جو لوگ ابتداء میں محبت محبت کے کھیل میں ان مسائل کی طرف توجہ نہیں کرتے ، وہ لوگ محبت کے ٹھنڈے پڑ جانے کے بعد بہت مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ، پھر ان کا نتیجہ بھی بہت بھیانک نکلتا ہے ۔ کچھ لوگ اپنی چائنیز بیویوں کو واپس اپنے اپنے ملک لے جاتے ہیں، لیکن وہ ہمارے اس معاشرے میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتیں ۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام اور خاندانی سازشیں ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ پیدا کر دیتی ہیں ۔ وہ سارے خواب اور نظریات جو ایک غیر مسلم کو مسلمان کر کے شادی کرتے وقت پیش نظر ہوتے ہیں، وہ چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ اسلام کے نمائندوں کو کوسنا اور غیر مسلم واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں ۔ اکثر لوگ یہی کہتے ہیں یہ اسلام صرف تمہاری زبانوں پر ہے نہ کہ تمہاری زندگیوں میں ۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس بیچارے اسلام کو سب سے بڑا خطرہ اس کے نمائندوں ہی سے ہے ، ان کی موجودگی میں کسی دشمن کی ، کسی سازش کی ضرورت نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے