چین میں گزرے 14 برس کا قصہ : روداد سفر (حصہ 20)

ایڈیٹر نوٹ

شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .

سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم

کچھ عرصہ بعد میمونہ جو میری بیوی کی سہیلی تھی نے اپنی رہائش تبدیل کی اور اس کالونی( duan tou ) میں شفٹ ہو گئی ۔ یہ نئی کالونی بنی تھی اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد یہاں رہتی تھی ۔ایک دن ہم میمونہ سے ملنے اس کے نئے مکان گئے تو باہر نکل کر اس کالونی کو دیکھا جو مجھے اور میری بیوی کو بہت پسند آئی ۔ مجھے اس حوالے سے کہ میری بیوی اور بیٹی کی کمپنی کےلیے مسلمان موجود ہیں اور بیوی کو شاید اس لیے کہ اس کالونی میں اسے سکاف پہنے کافی ساری مسلمان لڑکیاں نظر آئیں جس کی وجہ سے وہ شاید خود کو یہاں اجنبی محسوس نہ کرے ۔ یہ کالونی ایوو نہر کے دوسری طرف تھی ، بہت پرسکون سا علاقہ تھا ۔ ویسے ہی گھومتے گھومتے ایک جگہ ایک مکان کا پتہ چلا جو کچھ دن بعد خالی ہونے والا تھا ۔ اس کی مالکن سے بات چیت کی اور اسے کچھ ایڈوانس رقم دی ۔ اس نے بتایا کہ اگلی ایک تاریخ کو شفٹ ہو جانا ۔ اس بلڈنگ کے دوسرے فلور پر ایک یمنی بھائی احمد اور ان کی فیملی رہتی تھی ۔ اس کالونی میں مسلمانوں کی کھانے پینے کی دوکانیں بھی تھیں اور ایک چھوٹی سی مسجد بھی ایک فلیٹ میں بنائی گئی تھی ۔ کافی سارے عرب خاص طور پر یمنی مسلمان اور ان کی فلیمیز بھی نظر آئیں ۔ ایک چھوٹا سا پارک اور ایک باسکٹ بال کا احاطہ بھی تھا جہاں روزانہ شام کو میوزک کے ساتھ آنٹیاں ناچتی تھیں جسے یہ ایکسرسائز کہتے تھے ۔

پندرہ دن بعد ہی مکان خالی ہو گیا اور ایک شام میرے دل میں خیال آیا اور میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست کو بلایا اور سامان نئے گھر میں شفٹ کر دیا اور صبح خود بھی باقی چیزیں لے کر شفٹ ہو گئے ۔ نئے مالک مکان یہ سمجھی کہ میں نے کسی کے پیسے دینے ہیں اور اس سے بھاگنے کےلیے راتوں رات اندھیرے میں شفٹ ہو گیا ۔ اس نے یہ بات مجھ سے کہی لیکن میری بیوی نے وضاحت کر دی کہ ہم نے کسی کا کوئی ادھار نہیں دینا ۔ یہ فلیٹ چوتھے فلور پر تھا اور پہلے والے سے بڑا فلیٹ تھا ۔ اس لیے کچھ مزید چیزوں کی ضرورت بھی تھی جو ساتھ ساتھ خرید لیں ۔ کچن سیٹ کیا اور میں نے شام کو گوشت اور دال ماش پکائی ۔ میری بیوی ایک برتن میں خود لے کر دوسرے فلور میں موجود یمنی فیملی کو دینے گئی اور ان سے تعارف بھی حاصل کیا ۔ زبان الگ ہونے کے باوجود میری بیوی واپسی پر خوش تھی ۔ پھر معمول بن گیا کہ ہم کھانے کا تبادلہ کرتے رہتے تھے ۔

مغرب کے بعد میوزک کی آواز آنا شروع ہو گئی ۔ یعنی باسکٹ بال کے احاطے میں آنٹیوں نے میوزک پر ڈانس کرنا شروع کر دیا ۔ میں اور میری بیوی بھی بیٹی کو لے کر باہر چہل قدمی کرنے نکلے ۔ میری بیٹی حنا نیچے اترتے اور اوپر چڑھتے ہوئے یہ ضد ضرور لگاتی کہ میں نے بابا کے کندھے پر بیٹھ کر جانا ہے ۔ یعنی میں اس کی سواری تھی ۔ احاطے میں ایک طرف کچھ لڑکے باسک بال کھیل رہے تھے اور دوسری طرف ایک بڑا سا ڈیک پڑا تھا جس پر میوزک چل رہا تھا ۔ ایک خوبصورت آنٹی انسٹرکٹر تھی جو سب سے اگے ڈانس کے steps آہستہ سے کر رہی تھی اور دوسری ساری پیچھے صفیں بنا کر اس کو کاپی کر رہی تھیں ۔ یہ شاید حکومت کی حمایت ہی سے تھا اور سامنے شاید یہ بات ہو کہ ایکسرسائز سے صحت بنتی ہے کہ جو لوگ اس علاقے کے پہلے کسان تھے اب مکانات بننے کی وجہ سے زمین نہیں رہی اور ان کا طرز زندگی تبدیل ہو گیا اب وہ صرف مکان کے کرایے لیتے ہیں اس لیے اس زمین کی کاشت کی محنت کی بجائے اب جسم کو ایسے حرکت دی جائے ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ جہاں حکومت نے مذاہب پر پابندی لگا دی تو ایک کیمونٹی کے لوگوں کو اجتماعیت یا ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے تاکہ وہ ایک معاشرے کے بندھن سے بندھ جائیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ ایک خالق کا تصور رکھتا ہے جب بھی اس تصور کو ذہن سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک خلاء پیدا ہوتا ہے اور یہ خلاء کیسے پر کیا جائے یہ کیمونسٹ حکومت کےلیے ایک مسئلہ تھا ۔ کیمونسٹ حکومت کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی اکثر میں نے یہی دیکھا کہ ہر کالونی والے سال میں کم ازکم ایک مرتبہ اپنے قریبی موجود کسی مندر میں کھانے پینے کی چیزیں اور اگربتیاں لے کر ضرور جاتے تھے ۔ وہاں وہ جو کچھ بھی عبادت کرتے بہرحال اپنے دل کی تسلی کر لیتے تھے ۔ جبکہ ہمارے دین میں یہ عبادت کا مقصد نفس کا تزکیہ اور وہ لوگ وہاں اپنی فطرت میں موجود خالق کے تصور کے خلاء کو پر کرنے جاتے ہیں ۔

یہ مندر ہر علاقے میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود تھے ۔ اور ہر سال میں ایک دن خاص طور پر یوم قبور بھی منایا جاتا ہے ، جسے Tomb sweeping festival کہا جاتا ہے ۔ قبور پر جا کر ان کی صفائی کی جاتی ہے اور اگربتیاں جلائی جاتی ہے ، پھول لے جا کر قبور کو سجایا جاتا ہے ۔ اس کے علاؤہ کھانے پینے کی چیزیں ، شراب اور سگریٹ قبور پر رکھے جاتے ہیں اس عقیدے کے ساتھ کہ یہ چیزیں ان مرحومین کی ارواح کو خوشی دیں گی ۔ یہ تصور شاید انسان کی فطرت میں رب کی ذات نے رکھا ہے کہ یہ موت سب کچھ ختم نہیں کرتی یا انسان اس بات کو کسی طرح ماننے کےلیے تیار نہیں کہ وہ ختم ہو جائے ۔ یا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہ چاہتا ہو کہ کہیں اس کے اچھے کئے گئے کاموں کا کوئی بدلہ تو ہو اور اس سے کی گئی ناانصافیوں کا کوئی ازالہ تو ہو ۔ اب ان تصورات کا اظہار کو مختلف تہذیبوں میں مختلف انداز میں کرتا رہتا ہے ۔ یہ تصور جب بھی انسان کے ذہن سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج اس حد تک شدید نکلے کہ انسان کےلیے زندگی ہی بے مقصد ہو گئی اور وہ یہ سوچنے لگا کہ ختم تو ویسے ہی سب کچھ ہو جانا ہے تو یہ دشواریاں کیوں برداشت کی جائیں ۔ پھر یا تو وہ سب کچھ چھیننے لگ جاتا ہے یا سب کچھ ہار کر اپنی زندگی خود ہی ختم کر لیتا ہے ۔ جیسے جاپان جہاں خودکشی کی شرح بہت بلند ہے ۔

کیمونسٹ انقلاب کے بعد عبادت گاہوں کو بند کیا گیا تو ایسے احاطے ہر گاؤں میں بنائے گئے جہاں سے سارا دن لاؤڈ اسپیکر پر انقلابی نظمیں سنائی جاتی تھیں ۔ اب انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کے بعد ایسے کالونیاں بن گئیں تو اس کیمونٹی کو اکٹھا کرنے کےلیے ایسے احاطے بنائے گئے اور لوگ جو انقلابی نظمیں سن سن کر تنگ آ گئے انہیں یہ ڈانس کی نئی ایکسرسائز دی گئی جس سے ہر شخص کے حالات سے واقفیت ہو جاتی ہے ۔ جیسے باجماعت نماز یا چرچ کے سنڈے پروگرام میں سارے اکٹھے ہوتے ہیں جس سے ایک دوسرے سے واقفیت یا ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے کے حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ یہ آنٹیوں میں چائنا کے اندر جنون بن گیا کہ جہاں وقت اور جگہ ملی ڈانس شروع کر دیا اور کئی بار تو اس پر جھگڑے ہو جاتے ہیں ۔ کبھی ائیر پورٹ پر کبھی روڈ بلاک پر ۔

یہاں میمونہ اور میری بیوی کی دوسری سہیلی Ying Ying اکثر آتی تھیں ۔ کئی دفعہ تو میمونہ کام پر جاتے ہوئے اپنے بیٹے کو یہیں چھوڑ جاتی تھی ۔ اور اسے اطمینان ہوتا تھا کہ بیٹا ہمارے پاس ہے ۔ شاید ایسے ہی دور دور سے آئے ہوئے لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اور کام آ کر معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں ۔ میری بیوی بھی انہیں لے کے کالونی میں موجود پارک میں بیٹھ جاتی ۔ بچے کھیلنا شروع کر دیتے اور وہ وہاں موجود یمنی خواتین سے کچھ سیکھنے لگتی ۔

ایک دن ایک ایغور خاتون فاطمہ وہیں پارک میں ملی جو اسی کالونی میں رہتی تھی ۔ میری بیوی اسے ساتھ گھر لے آئی ۔ وہ اپنے ساتھ ایک اور چیز بھی لائی اور وہ تھی انڈین فلمیں اور ڈرامے جن کو میری بیوی نے شوق سے دیکھنا شروع کیا ، انڈین پاکستانی کلچر کو سمجھنے کےلیے ۔ ان میں فلم ” دیوداس ‘ تو باقاعدہ چائنیز زبان میں ترجمہ ہوئی تھی اور ڈارامہ وہ تھے جو گھروں میں موجود سیاست کو دیکھا رہے تھے ۔ انہوں نے ہمارے کلچر کے متعلق ایک نقشہ میری بیوی کے ذہن میں بنایا ۔ اس نے آگے چل کر بہت قیامتیں گرائیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے