روس یوکرین تنازعہ کو کون طول دے رہا ہے؟

یوکرین کا بحران پہلے سے دوچار سست عالمی معیشت پر اور بھی بڑے دباؤ کے اثراتِ مرتب کر رہا ہے۔ تاہم، امریکی محکمہ دفاع کے ایک سابق اہلکار نے انکشاف کیا کہ لابنگ فرمز، دفاعی صنعت اور مرکزی سیکرٹریٹس میں بہت سے لوگ جشن منانے کے لیے شیمپین کی بوتلیں کھول اپنے مقاصد کے حصول پر شاد ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ہیڈ مارٹن کے اسٹاک کی قیمت 24 فروری اور 28 مارچ کے درمیان 13 فیصد سے زیادہ بڑھی، اور نارتھروپ گرومین اور جنرل ڈائنامکس کے لیے یہ اعداد و شمار بالترتیب 13.4 فیصد اور نو فیصد تھے۔
اتنا بڑا اضافہ روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد ریکارڈ کیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کون اس امر سے دولت کما رہا ہے اور کون جنگ کو طول دینے کا خواہشمند ہے؟ بغور دیکھا جائے تو جوابات واضح ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر فلپ زمبارڈو اپنی کتاب The Lucifer Effect: Understanding How Good People Turn Evil میں کہتے ہیں کہ جنگیں کچھ لوگ تیار اور "گرم” کرتے ہیں، جن کے بغیر جنگیں شروع نہیں کی جا سکتیں۔
امریکی سیاست میں ایک ایسا "درندہ” کارفرما ہے جو جنگوں کو ہوا دینے اور کسی بھی ایشو جو ممکنہ جنگ ۔یں تبدیل کرنے کے جنوں میں مبتلا ہے، اور وہ چیز ملٹری-انڈسٹریل کمپلیکس ہے یہ ایک بہت بڑا مفاداتی گروپ ہے جس میں فوجی محکمے، ہتھیار بنانے والے ادارے، قانون ساز، دفاعی تحقیقی ادارے اور تھنک ٹینک شامل ہیں۔ یہ مسلسل امریکی سفارت کاری کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتا ہے۔ تاکہ وہ جنگوں، تنازعات اور اسلحے کی دوڑ سے بہت بڑا منافع حاصل کر سکے۔
ہسپانوی نیوز سائٹ ریبیلین کی طرف سے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، یہ امریکہ اور اس کے میڈیا کے ساتھ ساتھ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے لیے بھی بہت اہم ہے جس کے تحت ملک پر کچھ ایسے من گھڑت دشمن مسلط رکھیں جائیں جنہیں جوڑ توڑ کے تحت حقائق کے برعکس بڑا بنا کر پیش کیا جا سکے ہیں۔ .
اس تناظر میں دیکھا جائے تو روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ کو ہوا دینے اور اس سے ذاتی فائدے کے حصول کے لیے، امریکی فوجی صنعتی کمپلیکس اپنے ممکنہ فوائد کو ان کے پختہ ہونے سے پہلے ہی گن رہا ہے۔ یہ امریکی خارجہ پالیسیوں کو مفاداتی گروہوں کے ذریعے روس کو چیلنج کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور روس کے "فوجی خطرے” کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے سلامتی کی بے چینی کے امر کو فروخت کرتا ہے تاکہ یورپی ممالک کے لیے دفاعی اخراجات میں اضافے اور فوجی ڈیٹرنس کو بڑھانے کی ضرورت کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکے۔
امریکی محکمہ دفاع کی ایک حالیہ جاری رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے 2014 سے اب تک یوکرین کو 2.7 بلین ڈالر سے زیادہ کی سیکیورٹی امداد فراہم کی ہے۔ اس نے 2017 میں یوکرین کے لیے مہلک ہتھیاروں کی پیشکش پر بھی اتفاق کیا ہے۔ حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کے جاری کردہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے صرف پچھلے سال میں، امریکہ نے یوکرین کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی سیکورٹی امداد فراہم کی ہیں۔
جب سے روس-یوکرین تنازعہ شروع ہوا، امریکی فوجی صنعتی کمپلیکس جنگ کو ایک بہت بڑی مارکیٹ اور اشتہاری جگہ کے طور پر لے رہا ہے۔ نتیجتاً، جرمنی، فن لینڈ، پولینڈ اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کا اعلان کیا، اور امریکہ سے بھاری ہتھیار حاصل کرنے کا اعلان کیا، امریکی دفاعی صنعت ان خریداریوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہے۔
60 سال سے زیادہ پہلے، سابق امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے امریکی عوام کو خبردار کیا تھا کہ وہ فوجی صنعتی کمپلیکس کے امریکہ پر پڑنے والے نقصان دہ اثرات کے بارے میں ہوشیار رہیں، تاہم یہ "حیوان” ان دنوں سے آج تک بے قابو ہے۔ یہ امریکہ کی ملکی سیاست، سفارت کاری اور فوجی پالیسیوں کو اور بھی زیادہ بے ایمانی سے اپنے مفادات کے لیے توڑ جوڑ کرتا رہتا ہے۔
امریکہ میں قائم غیر منافع بخش تنظیم OpenSecrets کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، دفاعی ٹھیکیداروں نے لابنگ پر 2.5 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ "ریوالونگ ڈور” دفاعی صنعت کی ترقی میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ 2014 سے 2019 تک، امریکی محکمہ دفاع کے 1,000 سے زیادہ اعلیٰ حکام اور خریدار، بشمول سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس، ایسے فوجی اداروں میں چلے گئے جنہوں نے ان افراد کے تعلقات سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا۔
ملٹری-انڈسٹریل کمپلیکس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ جنگوں کا عادی کیوں ہے اور فوجی اخراجات کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر کیوں رہتا ہے۔ مالی سال 2022 میں، امریکہ کے دفاع سے متعلقہ منصوبوں پر 782 بلین ڈالر خرچ کرنے کی توقع ہے، ایک سال پہلے کے مقابلے میں 42 بلین ڈالر زیادہ، اور غیر دفاعی منصوبوں سے 52 بلین ڈالر زیادہ ہے حال ہی میں، امریکہ نے 2023 کے لیے 813 بلین ڈالر کا بجٹ تجویز کیا۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوجی اخراجات کا کم از کم ایک تہائی اسلحہ ڈیلرز کو جاتا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2012-16 اور 2017-21 کے درمیان بڑے ہتھیاروں کی عالمی منتقلی میں 4.6 فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی، جب کہ امریکہ نے اپنی برآمدات میں 14 فیصد اضافہ کیا، جس سے اس کے عالمی حصص کے حصہ میں 32 فیصد سے 39 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ کہنا مناسب ہے کہ جہاں بھی جنگ ہوتی ہے، وہاں امریکی ہتھیار اور امریکی فوجی صنعتی کمپلیکس کے نشانات ضرور پائے جاتے ہیں۔ جب تک جنگیں جاری رہیں گی بڑے پیمانے پر آمدنی کے وسیع زرائع فوجی اداروں کو ملتے رہے گی۔
امریکہ طویل عرصے سے اپنے آپ کو "جمہوریت کے علمبردار” کے طور پر پیش کر رہا ہے اور حالیہ برسوں میں جمہوریت بمقابلہ آمریت کے جھوٹے بیانیے کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ تاہم، امریکہ کی جانب سے COVID-19 رسپانس فنڈ کے حوالے سے ناکافی عوامل اور امریکی فوجی اداروں کی طرف سے جمع کی گئی خونی دولت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جنگوں اور تنازعات کو ہوا دینے والی امریکہ کی طرف سے کی جانے والی غلط کاریوں کے درمیان اس تضاد نے طویل عرصے سے امریکہ کی اس شبیہ کو داغدار اور پوری دنیا پر عیاں کر دیا ہے۔ امریکہ ایک جمہوری اور انسانی حقوق کے حامی ملک کے طور پر مزید دنیا کو اپنے سازشی کردار سے بیواقوف نہیں بنا سکتا۔
ملٹری-انڈسٹریل کمپلیکس اور دیگر مفاد پرست گروہوں کی طرف سے بلیک میل کیے جانے کے حوالے سے، امریکہ پہلے ہی پیسے کی پیاس میں مبتلا ہو چکا ہے۔ یہ دنیا اور اس کے اپنے شہریوں کے لیے صرف ہنگامہ آرائی اور خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے